قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

363

بدھ کو ایوان وزیراعظم میں قومی سلامتی کمیٹی کا بند کمرے میں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے بارے میں ایوان وزیراعظم سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کے ذمے داروں کی جانب سے ملکی سلامتی کی مجموعی صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس ملک کی خارجی سطح پر لاحق خطرات اور ان کے تدارک کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور پاک افغان سرحد پر انتظامی امور سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کے شرکا کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بارے میں بھی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھی مختصر تفصیلات بیان کیں۔ رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ اجلاس میں قومی، سیاسی، پارلیمانی اور عسکری قیادت موجود تھی۔ انہوں نے خاص طور پر بتایا کہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی جانب سے آصف علی زرداری بھی موجود تھے، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا خاص موضوع افغانستان میں طالبان حکومت کی سہولت کاری سے تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں پناہ گزین قیادت سے مذاکرات ہیں جو پاکستان کی داخلی و خارجی سیاسی صورت حال کے حوالے سے انتہائی حساس موضوع ہے۔ ٹی ٹی پی مذاکرات کے حوالے سے کورکمانڈر پشاور کی زیر نگرانی بات چیت کا عمل جاری ہے۔ اس بات چیت کے حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس نے کہا کہ حتمی فیصلہ پارلیمان میں کیا جائے گا اور وزیراعظم میاں شہباز شریف پارلیمان کے بند کمرے کے اجلاس میں پارلیمان کو اعتماد میں لیں گے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل میں عسکری و سیاسی حکومتی نمائندوں کے ساتھ قبائلی عمائدین بھی شامل ہیں، قبائلی عمائدین کا ایک وفد ٹی ٹی پی کے نمائندوں سے مذاکرات کے لیے افغانستان گیا تھا۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی تفصیلات سامنے ابھی تک نہیں آئی ہیں کہ ان میں کتنی کامیابی ہوئی ہے۔ ان مذاکرات کی خبریں آنے کے بعد وفاقی وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول زرداری نے یہ بیان دیا تھا کہ افغانستان کے بارے میں فیصلے پارلیمان میں کیے جائیں گے۔ اس بیان سے یہ تاثر قائم ہوا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو تحفظات ہیں، ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے مسئلے پر پاکستان میں دورائے پائی جاتی ہیں کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے یا طاقت کا استعمال کرکے انہیں کچل دیا جائے، اب تک قومی سطح پر ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں اتفاق رائے نہیں تھا، لیکن افغان طالبان اور امریکا کے درمیان سمجھوتے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے، توقعات اور خدشات کے برعکس افغان طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور امن قائم ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود افغانستان میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو امن وامان کو بگاڑ سکتی ہیں۔ اس لیے معقول رویہ یہی ہے کہ جن لوگوں کو بات چیت کے ذریعے امن کے راستے پر لایا جاسکتا ہے لے آیا جائے۔ بتایا گیا ہے کہ آصف علی زرداری بھی اس بات کے حق میں تھے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوگا، لیکن بعد میں اسے قومی، سیاسی اور عسکری قیادت کو شریک کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت ہے، اس کے اراکین قومی اسمبلی مستعفی ہوچکے ہیں لیکن اسپیکر نے ابھی تک ان کے استعفے منظور نہیں کیے ہیں۔ البتہ آئینی ضرورت پوری کرنے کے لیے تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی کو قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز کردیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو یہ نہیں بتایا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی تھی یا نہیں۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے ذریعے انہیں قومی دھارے میں لانے کی حامی ہے۔ یہ بات تو سب کے سامنے واضح ہے کہ امریکا سے معاہدے میں افغان طالبان نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے اب تک اس عہد کی پاسداری کی ہے لیکن امریکا اور اقوام متحدہ اس معاہدے پر اپنی روح کے ساتھ عمل نہیں کررہے ہیں۔ ابھی تک امریکا اور اقوام متحدہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان میں افغان حکومت کی سہولت کاری سے امن کے قیام کے لیے بات چیت پر قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔ عسکری قیادت نے یہ بھی بتایا ہے کہ آج پاکستان کے کسی بھی حصے میں منظم دہشت گردی کا کوئی ڈھانچہ باقی نہیں رہا۔