مفادات کے لیے قانون سازی

510

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نیب ترمیمی بل بھی دستخط کیے بغیر واپس کردیا۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ اس مرتبہ بل جوں کا توں منظور ہوجائے گا ڈاکٹر عارف علوی نے اس فیصلے کی توجیہہ یہ پیش کی ہے کہ میرے ضمیر نے گوارانہیں کیا ۔ ان کی بات درست ہے لیکن گزشتہ چار برس میں عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی ناقص ریفرنس داخل کرتے وقت بنی گالا میں غیر قانونی توسیع کے وقت اور دیگربلوں کی عجلت میں منظوری کے وقت بھی ان کا ضمیر ایسے فیصلے کرواتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ لیکن ان کا یہ اقدام اس اعتبار سے درست ہے کہ حکومت محض ڈیڑھ سال کی مدت کے لیے آئی ہے اور اس میں وہ نیب اور انتخابی قوانین جیسے اہم معاملات پر قانون سازی کررہی ہے جب کہ اپوزیشن میں سوائے جماعت اسلامی کے کوئی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی اسمبلی سے باہر ہے۔ حکومت اگر نیب کے پَر کاٹنے اور اپنے لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکلوانے کے بجائے عوام کی فلاح کے کچھ کام کرلیتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی کے بم مارنا تو مجبوری تھے لیکن دوسرے شعبوں میں عوام کو ریلیف دیا جاتا۔ مٹی کا تیل سستا کیا جاتا، خوراک کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جاتا، سبسڈی دی جاتی یا نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جاتی کہ اس کام میں حکومت کا ہاتھ بٹاتے۔ لیکن جس روز سے حکومت آئی ہے اس کا سارا زور نیب کو ٹھکانے لگانے اور انتخابی قوانین میں اپنی مرضی کی ترامیم پر ہے۔ کسی بھی قانون کی منظوری سے قبل اسمبلی میں اس پر بحث کی جاتی ہے، ان بلوں کو جلد بازی میں پیش اور منظور کرایا گیا تو پھر پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی میں کیا فرق ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی آج بل پیش کیا کل منظور کرایا۔ فیٹف کے بل کو منظور کرانے میں پیپلز پارٹی نے بھی ساتھ دیا اور واک آئوٹ کرکے میدان کھلا چھوڑ دیا۔ اب تو اندھا بھی یہ جان چکا ہے کہ پارلیمنٹ میں صرف جماعت اسلامی قومی اہمیت کے حامل معاملات میں آواز اٹھا رہی ہے۔ اور اس مرتبہ پی ٹی آئی نے اسمبلی سے غیر حاضر رہ کر پی ڈی ایم کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی ترامیم کرلے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیب میں پی ڈی ایم والوں کے کیس طویل عرصے سے چل رہے ہیں اور وہ کسی معاملے میں بھی استغاثہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بیش تر مقدمات میں تو نیب عدالت نے ملزموں کو ریلیف دیا ہے۔ پی ڈی ایم والوں کے خلاف اگر مقدمات جعلی یا غلط ہیں تو وہ ان ہی اداروں میں اپنا دفاع کریں اور عدالتیں بھی کھلی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے تو رات بارہ بجے بھی عدالت کھل جاتی ہے۔ جس مقصد کے لیے یہ ادارہ بنایا گیا تھا اس سے تو یہ ہٹ چکا ہے اب اس سے صرف سیاسی مخالفین کا گھیرا ہی تنگ کیا جاتا ہے۔ اب فی الحال باری پی ٹی آئی والوں کی ہے ان کے خلاف بھی مقدمات بن رہے ہیں اور تفتیش بھی ہورہی ہے، ان کے اسکینڈلز بھی سامنے آئیں گے۔ اس اعتبار سے تو پی ٹی آئی کو بھی ریلیف ملے گا، لیکن چوں کہ دونوں نے ایک دوسرے کی مخالفت کا تہیہ کر رکھا ہے اس لیے اگر حکومت صبح کہے گی تو اپوزیشن اسے رات قرار دے گی اور حکومت اچھا بھی کرلے تو اپوزیشن اسے خراب ہی قرار دے گی۔ گزشتہ 2 ماہ سے حکومت پر تو پی ٹی آئی ارکان تنقید کررہے ہیں لیکن خود اسمبلی سے باہر ہیں اور منطق یہ پیش کی ہے کہ ان چوروں کے ساتھ اسمبلی میں نہیں بیٹھ سکتے۔ حیرت ہے ان ہی ’’چوروں‘‘ کے ساتھ تو چار سال سے اسمبلی میں بیٹھے تھے اب وہ حکومت میں آگئے تو ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ پھر اسمبلی سے تنخواہیں اور مراعات بھی نہ لی جائیں۔ یہ عوام کے ساتھ بددیانتی ہے کہ ایوان سے مستقل غیر حاضر رہا جائے، پھر بعد میں آسمان سر پر اٹھایا جائے گا کہ ہماری غیر موجودگی میں پی ڈی ایم نے غیر قانونی بل منظور کرالیے۔ عوام سے ووٹ، اسمبلی سے مراعات لینے اور غیر حاضری کے لیے تو نہیں لیے گئے تھے۔ پاکستان میں یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ادارے، ایجنسیاں اور خفیہ ایجنسیاں بنتی ہی رہتی ہیں، درجنوں ایجنسیاں موجود ہیں، خفیہ ایجنسیاں ہیں جن کے فنڈز لامحدود اور ہاتھ قانون سے بھی لمبے ہیں۔ لیکن ملک میں دھماکے بھی ہوتے ہیں اور دہشت گردی بھی اور درجنوں غیر ملکی جاسوس ادارے دندناتے پھرتے ہیں۔ پہلے صرف پولیس اور سی آئی ڈی ہوتے تھے پھر ایف آئی اے پیدا ہوئی، اس کے بعد لوگوں کو پتا چلا کہ آئی ایس آئی بھی ہے جو کہیں بھی اپنی مرضی سے آپریٹ کرسکتی ہے۔ ان کے علاوہ بڑا ادارہ نیب کا جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بنایا گیا۔ انٹیلی جنس بیورو بھی موجود ہے، سی آئی ڈی بھی ہے لیکن جتنے ادارے بڑھتے جارہے ہیں کرپشن کا وزن بھی اسی حساب سے بڑھ رہا ہے۔ سانحہ ساہیوال، کراچی کا 12 مئی، سانحہ طاہر پلازہ، نقیب اللہ قتل کیس، رائو انوار کے سیکڑوں ٹارگٹ ان میں سے کسی کا فیصلہ ہوا ہے؟ لاپتا افراد کی تعداد بڑھتی کیوں جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایجنسیوں اور اداروں کی تعداد اداروں کے بوجھ سے ملک کا خزانہ دبتا چلا جارہا ہے اور عوام کو کہیں سے ریلیف نہیں مل رہا۔ یہ ریلیف ایک اسلامی فلاحی ریاست میں ممکن ہے مغربی نظاموں میں کچھ نہیں رکھا۔