معیشت تنگ کیوں ہوتی جارہی ہے

646

پاکستان میں حالات کی خرابی ہر آنے والے حکمراں کے دور میں بڑھ جاتی ہے اور لوگ پچھلے کو کوسنا چھوڑ کر نئے حکمراں کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں تین پارٹیاں بڑی پارٹی ہونے کی دعویدار ہیں۔ پیپلز پارٹی 1969ء میں وجود میں آئی اور پی ٹی آئی 1993ء میں مسلم لیگ ایک ایسا نام ہے جس کا ہر دھڑا خود کو قائداعظم کا وارث قرار دیتا ہے کیونکہ قائداعظم کی مسلم لیگ نے پاکستان بنایا تھا۔ یہ ساری پارٹیاں اور فوجی ڈکٹیٹرز پاکستان پر 74 برس سے زیادہ حکومت کرچکے لیکن ملک ترقی کرنے کے بجائے ترقی معکوس کررہا ہے۔ کبھی اس کا سبب عالمی حالات، کبھی بھارت کی سازش کبھی امریکی جنگ میں حصہ داری اور کبھی دہشت گردی کو قرار دیا جاتا ہے۔ سابق حکمراں عمران خان نے امریکی سازش قرار دیا ہے۔ حالانکہ ان میں کسی حکمران کا رویہ اور طرز حکمرانی ایسا نہیں رہا جس کی وجہ سے امریکہ پریشان ہو۔ خاص طور پر جنرل پرویز اور ان کے بعد سے تو بھارت دوست بھارت نواز حکمراں آئے اور کسی نے بھارت کے جنونیوں کا ہاتھ روکنے والا اقدام نہیں کیا۔ اگر کسی نے کوئی سنجیدہ کوشش بھی کی تو وہ ناکام ہوگئی۔ ان سب نے کبھی نہیں سوچا کہ دنیا بھر کے ممالک یہی ترکیبیں اور منصوبے استعمال کرکے کیوں ترقی کررہے ہیں اور ہم کیوں نہیں کرپاتے اس کا صرف ایک سبب ہے کہ دنیا میں پاکستان واحد ریاست ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے نام پر وجود میں آئی ہے اور یہاں اسلامی نظام حکومت اور نظام حیات نافذ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ان حکمرانوں نے اسلام کے سوا ہر نظام یا ازم اختیار کرکے دیکھ لیا ملک تباہی کی طرف ہی جاتا رہا معیشت تنگ ہی ہوتی رہی معیشت تنگ ہونے کا ذکر قرآن نے بہت واضح الفاظ میں کیا ہے کہ
جس نے ہمارے ذکر سے اعراض برتا ہم اس کی معیشت (زندگی) تنگ کردیں گے اور اسے قیامت میں اندھا اٹھائیں گے وہ کہے گا کہ اے رب تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا میں تو دنیا میں آنکھ والا (دیکھنے والا) تھا اللہ فرمائے گا کہ تیرے پاس میری آیات آتی تھیں تو تم نے انہیں بھلادیا اسی طرح آج تم کو بھلادیا گیا۔ (سورۃ طٰہٰ)
قرآن نے صاف اور واضح طور پر کہا ہے کہ سود لینا دینا نہ چھوڑا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے لیے تیار رہو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدالت انگریزی قانون کے مطابق تعلیم انگریزی نظام کے تحت، معیشت سود پر مشتمل بلکہ سود میں لتھڑی ہوئی حکمراں قوم کے خادم ہونے کے بجائے قوم کے آقا بنے پھرتے ہیں جس کے پاس جتنی طاقت ہے اس کا غلط استعمال کرتا ہے۔ جھوٹ بدعنوانی جسے کرپشن کے نام سے آسانی سے پہچانا جاتا ہے اور بے ایمانی دھوکا دہی یہ سب تمام حکمرانوں کی رگوں میں دوڑ رہے ہیں نتیجتاً عوام بھی اسی راستے پر چل نکلے ہیں پھر کہتے ہیں کہ معیشت پچھلے حکمراں کی وجہ سے تنگ ہے اور پچھلے والے کہتے ہیں کہ نئے والے نے معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے ہمارے سامنے اللہ کے احکامات بہت واضح اور کھول کھول کر رکھ دیئے گئے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس تو کوئی بہانہ نہیں ہے کہ ہمیں پتا ہی نہیں تھا وہ تو بنی اسرائیل کی طرح کے ہر قسم کے بہانے کرچکے جب بچھڑا ان کے رگ و پے میں سرایت کرچکا تھا۔ کہ بچھڑا کیسا ہو۔ رنگ کیسا ہو اس کی نشانیاں بتائو بالآخر تمام نشانیاں آنے کے بعد بچھڑا قربان کیا۔ اس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ وہ ایسا کرنے والے نہ تھے پاکستانی حکمرانوں کا بلاتخصیص یہی حال ہے سود کے حوالے سے اچھی طرح ان کو تحقیق کرکے بتایا جاچکا ہے کہ سود اور تجارت میں کیا فرق ہے لیکن چیف جسٹس سمیت سب ہی بار بار پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ ربا کی تعریف بتائیں کیا ہے۔ ان سب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ یہ سود کا خاتمہ کرنے والے نہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اس حوالے سے پارلیمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کی خودمختاری کے قائل ہیں لیکن اگر پارلیمنٹ تو کیا پوری دنیا کے انسان بھی اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کریں گے تو جماعت اسلامی برداشت نہیں کرے گی۔ اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی نے 25 جون سے ٹرین مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں سود اور کرپشن کے خلاف تحریک کو تیز کیا جائے گا۔ پاکستانی حکمراں سادہ لوح نہیں ہیں۔ اسلامی احکامات سے لاعلم بھی نہیں ہیں بلکہ یہ وہ کھاتے پیتے لوگ ہیں جو ہمیشہ دین کی راہ روکتے ہیں اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈالتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ معیشت کیوں تنگ ہے سوچنے کی نہیں اب تسلیم کرنے اور خدا سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے، قوم بھی سود سے جان چھڑائے اور حکمراں بھی۔۔۔۔ پھر معیشت کشادہ ہو یا نہیں برکتیں ضرور ملیں گی۔