اقتصادی اصلاحات کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ناکافی ہیں،میاں زاہد حسین

238
قرضہ دینے والوں کے مطالبات نظر انداز نہیں کئے جا سکتے،میاں زاہد حسین

کرچی: نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اورسابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اب تک اقتصادی اصلاحات کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔

حالیہ اقدامات سے عوام پر بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے اوران میں مذید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے۔ عوام پرمذید بوجھ لادنے کے بجائے امراء کو ہدف بنایا جائے ٹیکس نظام کو متوازن کیا جائے زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے، ناکام سرکاری ادارے جو سالانہ چھ سو ارب روپے قومی خزانے سے چوستے ہیں ان کو پرائیویٹائز کیا جائے، بجلی، گیس چوری اور ان کے لائن لاسز جن کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ 700 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے کو ختم کیا جائے اورصنعت پر ٹیکس کم کیا جائے ان اقدامات سے حکومتی اخراجات کم ہوں گے اور کاروباری لاگت کم ہوگی جس سے صنعتی عمل تیز ہوگا، معیشت ترقی کرے گی عوام کو روزگار ملے گا اورحکومت کو محاصل کی مد میں اربوں روپے کی آمدنی ہوگی جس سے عوام کو ریلیف دیا جاسکے گا۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کئی دہائیوں سے حکومتوں کی ترجیحات غلط ہیں جسکی وجہ سے اب سود کی ادائیگی پر حکومت کو ریونیو کا اکہتر فیصد خرچ کرنا پڑرہا ہے جبکہ عالمی منڈی کے حالات، مقامی سیاسی تناؤ اور وسائل کے بے دریغ استعمال نے روپے پر سے اعتماد ختم کردیا ہے جس سے اسکی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے جس کے نتیجہ میں مذید مہنگائی اور بے چینی پھیل رہی ہے جبکہ تیزی سے بدلتی صورتحال میں حکومتی رسپانس ناکافی ہے جس سے اقتصادی مشکلات کم نہیں ہو رہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے اپنی آمدنی بڑھائے اور اخراجات کم کرے کیونکہ یہ واحد آپشن ہے۔ اشرافیہ کو تقریباً تین ہزار ارب روپے کا سالانہ ریلیف دینے کا سلسلہ بند کیا جائے جبکہ غریبوں کو ایک تہائی حصہ بھی دے دیا جائے تو لاکھوں افراد کی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔ اس وقت حکومت ٹیکس کے تحت وصول ہونے والے ہرایک سوروپے کے بدلے کرنٹ اخراجات پر دوسو روپے لگا رہی ہے۔ ہرایک سوڈالرکی برآمد کے مقابلہ میں دوسوبیس ڈالر کی درآمدات کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے قرضہ مسلسل بڑھ کر چار کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے جواب ملک کو دیوالیہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ متعدد ترقی یافتہ ممالک میں حکومت کی ملکیت میں موجود کاروں کی تعداد ایک سو سے کم ہوتی ہے اور کسی افسر کو ذاتی استعمال کے لئے کار نہیں دی جاتی مگر پاکستان میں ایسی کاروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے جن میں سے بہت سی گاڑیوں کی مالیت کروڑوں میں ہے۔

پاکستان میں سترہ گریڈ کے ضلعی ٹیکس اورپولیس افسران وغیرہ جو گاڑیاں استعمال کرتے ہیں وہ بھارت میں وفاقی وزراء کو بھی نہیں دی جاتیں۔ میاں زاہد حسین مذید نے کہا کہ حالات مخدوش ہوتے جا رہے ہیں مگر بعض سیاستدانوں کو ملکی معیشت کے بجائے اپنے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے اور وہ اقتدار کے لئے ملکی مفادات کو مسلسل قربان کر رہے ہیں جس سے عدم استحکام بڑھ رہا ہے جو معیشت کی بنیادوں میں بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف ہے۔