پاکستان بنگلا دیش سے سیکھے

639

ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں کی اونچی سے اونچی پرواز کے دوران، اس مالی سال کا بجٹ آ ہی گیا۔ بجٹ کا حجم تقریباً 1000ارب روپے زیادہ ہے۔ پچھلے بجٹ میں ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 5829 ارب روپے تھا جسے بعد میں 6000 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا مگر اس بجٹ میں ٹیکس ہدف 7004 ارب ہے۔ گزشتہ بجٹ میں جی ڈی پی کی شرحِ نمو کا ہدف 4.8فی صد تھا مگر اکنامک سروے کے مطابق شرحِ نمو 5.97 تک پہنچ گئی اس بجٹ میں جی ڈی پی کی نمو کا ہدف پانچ فی صد رکھا گیا ہے جبکہ افراطِ زر کا تخمینہ جو مالی سال 22ء کے بجٹ میں 8.2فی صد تھا مگر عملاً مہنگائی کی شرح تیرہ فی صد سے بھی بڑھ چکی ہے اس بجٹ میں شرح ساڑھے گیارہ فی صد لگایا گیا ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے مختص رقم میں بھی 29فی صد کا غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر رواں مالی سال کی برآمدات سے قریب پانچ ارب ڈالر زیادہ ہے جبکہ درآمدات کے ہدف کو کم نہیں کیا گیا۔ ان شماریات کی روشنی میں حکومت اپنے اس بجٹ کو ضرور متاثر کن قرار دے سکتی ہے اور یہ نعرہ بھی لگا سکتی ہے کہ نچلے طبقے کو ریلیف دیا گیا اور زیادہ بوجھ اونچے طبقے پر ڈالا گیا مگر کھانے کے تیل پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس اور 30روپے فی لیٹر کے حساب سے لیوی کی وصولی ان اشیا کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا سبب بنے گی جس کا زیادہ بوجھ کم آمدنی والے طبقے ہی پر پڑے گا۔ بجٹ کا خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور گندم، کینولا، سورج مکھی اور چاول کے بیج کی فروخت پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا۔
بجٹ کا ایک اور مثبت نکتہ سولر پینلز کی فروخت پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ اور چھوٹے صارفین کو سولر انرجی سسٹم کے لیے بینکوں سے قرض دلوانے کا منصوبہ ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر ری نیو ایبل انرجی ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے توانائی کی لاگت اور تھرمل انرجی کی کھپت پر انحصار کم کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں سورج کی روشنی تقریباً سال بھر دستیاب رہتی ہے مگر شمسی توانائی کی جانب رجحان کم ہے اگر حکومت اس سلسلے میں تعاون کرے تو شمسی توانائی کا رجحان نمایاں طور پر بڑھ سکتا ہے۔ زرعی مشینری پر ٹیکس میں چھوٹ کی بدولت زرعی شعبے پر بہتر اثرات کی امید کی جاسکتی ہے مگر اس سلسلے میں یہ اِشکال بہر حال موجود ہے کہ جب تک کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی نہیں آتی اور زرعی قرضوں کے حجم میں اضافہ نہیں ہوتا صرف مشینوں پر ٹیکس میں کمی زرعی انقلاب کا خواب پورا نہیں کر سکتی۔ مالی سال 22 ء کی شرح نمو میں اضافہ جن صنعتوں کا مرہونِ منت ہے زراعت ان میں سے ایک ہے مگر ہماری زراعت حکومتی سرپرستی سے محروم رہی ہے۔ جب تک زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے جامع حکمت عملی بروئے کار نہیں آتی زراعت اپنے بھر پور پوٹینشل کے ساتھ نتائج نہیں دے سکتی۔ صنعتی شعبے کی پیداوار کے لیے بھی یہی مسائل ہیں کہ بظاہر حکومتی بیانات بڑے پُرجوش اور حوصلہ افزا معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی افادیت بڑی حد تک سامنے نہیں آ پاتی۔ چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لیے یہ مسئلہ بطورِ خاص ہے کیونکہ بڑی صنعتوں کی طرح یہ درمیانہ اور نچلا شعبہ ٹھوس حکومتی توجہ کے بجائے صرف دلاسوں سے ٹرخایا جاتا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران آئی ٹی کی برآمدات قریب دو ارب ڈالر رہیں جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں قریب 30فی صد زیادہ تھیں جبکہ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات کو 10ارب ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔ اس کے لیے مسلسل اور بھر پور حکومتی توجہ اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ اگر مالی سال 22ء کے پہلے نو ماہ کے دوران آئی ٹی کی برآمدات ایک سال پہلے کے مقابلے میں قریب 30فی صد زیادہ رہی ہیں تو آئندہ مالی سال کے اس عرصے میں یہ اضافہ کم از کم 50فی صد تک ہونا چاہیے۔ جب تک حکومت اور متعلقہ ادارے اس سلسلے میں واضح اہداف متعین نہیں کرتے اور ان اہدا ف کے حصول کو چیلنج سمجھ کر کام نہیں کیا جاتا ملک کے دیگر اہم شعبوں کی ترقی آئی ٹی کے شعبے میں بھی کارکردگی صلاحیت کے مقابلے میں غیر معمولی حد تک کم رہے گی۔
بجٹ کی شماریات اپنی جگہ مگر ان اہداف کا حصول حکومت کے لیے اصل چیلنج ہے۔ خاص طور پر مہنگائی کو قابو میں رکھنا اور نمو بڑھانا دو ایسے چیلنجز ہیں جن کے لیے حکومت کو بہت کوشش کرنا پڑے گی۔ حکومت کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ان حالات میں تنقیدی سیاست میں اُلجھنے اور ناکامیوں کی ذمے داری سابقہ حکومت پر ڈالنا قطعی مناسب حکمت عملی نہیں۔ حکومت کو صحیح معنوں میں اپنے کام پر توجہ رکھنا ہو گی کچھ اس لیے کہ اس کے پاس وقت کم ہے اور کچھ اس لیے کہ سامنے چیلنج بہت بڑا ہے۔سابقہ حکومتوں پر تنقید کرنے اور سیاسی بیان بازی سے ہرگز نہیں۔ ہمارے صاحبِ اقتدار لوگ معیار ِ زندگی کی بات کرتے ہیں۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس ملک میں دوہرا معیارِ زندگی پنپ رہا ہے؟ ایک طرف عوام ہیں جو جانتے بوجھتے غیر معیاری خوراک کھانے پہ مجبور ہیں۔ دوسری جانب اس ملک کی اشرافیہ ہے، جسے آلو، پیاز، گوشت، گھی، اور اجناس وغیرہ کی قیمتوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ان کے لیے یہ کہنا کہ اس سال گرمی بے مثال طور پر حد درجہ زیادہ پڑ رہی ہے، اور یہ کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بارہ گھنٹے روزانہ سے زیادہ ہو چکا ہے، بے معنی سے جملے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے تو باتھ رومز تک جنریٹروں کے زور پر چلنے والے ائر کنڈیشنروں سے مزین ہیں۔ یہی صورتِ حال کچھ عرصہ پہلے تک ماضی کے مشرقی پاکستان، یعنی آج کے بنگلا دیش میں دیکھنے کو مل رہی تھی۔ مگر پھر وہاں کے اجتماعی سیاسی شعور نے انقلابی اقدامات کیے اور اب ہمارے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ بنگلا دیش کی ماضی قریب کی مثال سامنے رکھتے ہوئے تمام سرکاری دفاتر اور سرکاری گھروں سے اے سی اتارے جائیں اور سرکاری گاڑیاں لے لی جائیں۔ دوسرے شہر میں جانا ہوتو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ بیرونِ ملک مفت علاج بند کرکے سرکاری اسپتالوں میں علاج کی سہولت دی جائے۔ جج، جرنیل، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ارکان قومی اسمبلی سب صرف تنخواہ پر گزارا کریں۔ ان کی اولادیں سرکاری اسکولوں میں پڑھیں۔ سرکاری ریسٹ ہائوس نیلام کرکے پیسے سرکاری خزانے میں جمع کروائے جائیں۔ جس کو اختلاف ہے اس کو گھر بھیج کر اس کی پنشن بھی ضبط کرلی جائے۔ اب پاکستانی عوام کا موجودہ اجتماعی سیاسی شعور یہ سب کروا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ طاقت کے مراکز اور مضبوط ایوانوں کو سوچنے پر مجبور کردے اور ان کے سوئے ہوئے ضمیروں پر یہ الفاظ ہتھوڑے بن کر برسیں۔