مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ صرف غریبوں پر کیوں؟

598

محب وطن پاکستانیوں کا یہ مطالبہ تو اب شدت کے ساتھ زبان زد عام ہو چلا ہے کہ مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ صرف غریب عوام پر نہ ڈالا جائے بلکہ اس کا دائرہ ملک کی اشرافیہ تک وسیع کیا جائے جس میں فوج، عدلیہ، بیوروکریٹس اور امراء کے تمام طبقات شامل ہوں کیونکہ ملکی وسائل کا سب سے زیادہ فائدہ بھی انہیں ہی پہنچتا ہے اس کا منہ بولتا ثبوت ان کے طرز زندگی اور رہائش سے آپ ظاہر ہے ان میں سے کچھ کے ٹھاٹ باٹھ کا تو یہ عالم ہے کہ ایک اکیلا سرکاری ملازم اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پورا جزیرہ خریدنے کی استطاعت اور دوسرا حاضر سروس ہو کر مبینہ پاپا جونز کی پوری چین کا کاروبار چلا سکتا ہے۔

ہمارے جج جو بھوک سے تنگ آئے ملزم کو محض ایک روٹی چرانے کے جرم میں پانچ اور سات سال تو کسی کو عمر قید کی سزا دیتے وقت ایک لمحہ بھی یہ نہیں سوچتے کے اس کو چور بنانے میں خود ان کا اپنا ہاتھ بھی شامل ہے کیوں کہ انہوں نے ملکی وسائل کا بیش تر حصہ جائز ناجائز کی پروا کیے بغیر اپنے لیے حاصل کیا جو امیر و غریب کی تفریق کا سبب بنا جن کے بچوں کی شادیاں اتنی پرتعیش ہوں کہ ایک عرصے تک لوگوں کی بیٹھک کا موضوع بنی رہیں، جو ڈیم فنڈ کی چوکیداری کے نام پر محب وطن پاکستانیوں کے جذبات سے کھیل کر کروڑوں جمع کریں مگر اس کے حسابات دینے کے پابند نہ ہوں اور جو خود کرپٹ ہونے کے باوجود دوسروں کو گاڈ فادر اور سیسلین مافیا کا لقب دینے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہ کریں، جن کی عدالت میں وقت کے نامور لوگوں کو پانچ پانچ ہزار کے مچلکوں پر آئین شکنی کے الزامات کے باوجود ضمانتیں اور غریب کو لاکھوں کے مچلکے بطور ضمانت جمع کرانے کا حکم دیا جاتا ہو جن کی نظر عدل و انصاف کی بالا دستی کے بجائے انتظامیہ اور مقننہ کے کاموں میں رخنہ اور رکاوٹ پیدا کرنے پر لگی رہتی ہو، جو سابق وزیر اعظم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے یہ کہیں کہ شاید ڈی چوک تک لانگ مارچ نہ کرنے کی خبر ان تک نہ پہنچی ہو مگر جو بے شمار سچی گواہیوں کے باوجود کسی غریب کو شک کا کوئی فائدہ دینے پر تیار نہ ہوں۔

بیوروکریٹس اور سول سرونٹ جو شاہانہ رہائش رکھتے ہوں اور جن کے طرز زندگی پر عوام ہمیشہ انگشت نما رہے۔ بد قسمتی سے 22 کروڑ عوام کی جان مال عزت آبرو صحت و تعلیم معاشرت معیشت عدل و انصاف سب انہی کے ہاتھوں میں ہو جس کے نہ تو وہ مکلف ہوں اور نہ ہی اہل اور جہاں ملک میں اکثریت ان سیاستدانوں کی ہو جو موسموں اور گرگٹ کی طرح ہمہ وقت اپنا رنگ بدلنے کی قدرت رکھتے ہوں اور اپنے نظریات کو خود اپنے ہاتھوں روز دفن کرتے ہوں، ووٹ غریب سے مانگ کر اپنی امارت میں اضافہ کرنے کا گر اور سلیقہ جانتے ہوں اور جن کی ڈگڈگی اور بانسری کا جادو اتنا جاندار ہو کہ لوگ ان کی حقیقت جاننے کے باوجود ان کے گرد محو رقص ہوں۔ جہاں کی اشرافیہ کو اپنی عزت کی تو بے حد فکر ہو مگر جن کو روزانہ لاکھوں کی عزت اچھالنے اور ان کی پگڑیاں تار تار کرنے کی پوری اجازت ہو، جہاں پر منصفوں کو می لارڈ پکارا جاتا ہو جن کی توہین پر فوری سزا کا اطلاق ہوتا ہو تاہم توہین رسالت کے کسی ملزم کو موجود تمام شہادتوں کے باوجود کوئی سزا دینے سے اس لیے اجتناب برتا جاتا ہو کہیں ان کے فیصلے یہود و نصاریٰ کی نا خوشی کا سبب نہ بن جائیں۔

ہمارے ملک کی اشرافیہ پر لگے بے شمار فرد جرم میں سے چند ایک کے بعد کسی حد تک نہیں بلکہ سو فی صد ملک کے معصوم و غریب عوام کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ ملک پر چڑھے قرضوں کا بوجھ اور بڑھتی مہنگائی کا خراج بھی انہی سے وصولا جائے جو اس کا سبب بنے ہیں جن کے پروٹوکول اور جن کی شاہی سواریاں بشمول بنی گالہ تا وزیر اعظم ہاؤس ہیلی کاپٹر کے سفر کے باعث پٹرول و ڈیزل کا بحران جنم لیتا ہے، جن کے کتے بلی کے درامدی کھانے جن کی شراب وشباب کی محفلیں آباد رکھنے کی غرض سے اقلیتوں کے نام پر بنے لائسنس سے الکحل اور نشہ آور اشیاء کی درآمد، جن کے گھروں میں درامد شدہ گاڑیوں کے نئے ماڈل کی ایک قطار اور جن کے بیوی بچوں کے لیے سامان تعیش اور کھیل تماشوں پر آئے اخراجات زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور تجارتی خسارے کا باعث بنتے ہیں عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قابل سزا بھی وہی ہوں جو اس کے مجرم ہیں نا کہ وہ جن کا ان قرضوں سے دور کا واسطہ بھی نہیں جن کے بچوں کو سرکاری اسکول اور نہ ہی کتاب اور کاپیوں کے مد میں کوئی سہولت میسر ہے جن کے گھروں میں پانی بجلی گیس اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنے میں حکومت کا کوئی حصہ بھی نہیں انصاف کا تقاضا پھر تو یہی ہونا چاہیے کہ ان پر مہنگائی اور ملکی قرضوں کی ادائیگی کا کوئی بوجھ بھی نہ ڈالا جائے۔ بقول سابقہ حکومت اور ان کے سحر میں آیا ایک مخصوص طبقہ جو سابقہ حزب اختلاف کو بطور طنز امپورٹیڈ حکومت کہتا ہے اسے چاہیے کہ سارے مسروقہ مال کی وصولیابی کسی حیل و حجت کے بغیر انہیں سے کرے جو سب سے زیادہ شریک جرم رہے ہیں چاہے ان کا تعلق اسٹیبلشمنٹ ہمارے عسکری ادارے فوج کے سابقہ اور موجودہ جرنیل یا سپہ سالار ہی سے کیوں نہ ہو عدلیہ کے ججوں سابقہ اور موجودہ بیوروکریٹوں اور سول سرونٹ سے کیا جائے۔ اس ضمن میں موجودہ حکومت کا سب سے پہلا کام گریڈ 17 تا اوپر کے تمام سرکاری ملازمین بشمول فوج و عدلیہ کے پٹرول اور ان کے سفری اخراجات میں کم ازکم 30 تا 40 فی صد کی کمی سے کرنا چاہیے جس پر کچھ کام شروع بھی ہو چکا ہے اور ان کی پنشن میں بھی 50 فی صد کی کمی کی جائے اور تمام ریٹائرڈ سرکاری ملازموں سے فری علاج معالجہ کی سہولت بھی واپس لے لی جائے کیونکہ ملک کے 80 فی صد طبقے کو یہ سہولت میسر نہیں جن کے خون پسینوں کے محصولات سے اشرافیہ اور ان کی اولادیں عمر بھر مستفیض ہوتی ہیں۔ تمام اراکین اسمبلی وسینیٹ کو دی جانے والی ہر سہولت سوائے سفری اخراجات اور ان کی رہائش پر آنے والی رقم کو یکسر اور مکمل ختم کر دیا جائے چونکہ وہ عوام سے ان کی خدمت کے نام پر ووٹ لے کر آتے ہیں اور خدمت بلا معاوضہ ہوتی ہے اور مکمل دیانتداری مانگتی ہے اس طرح ملک میں لوٹا کریسی اور ارکان اسمبلی و سینیٹ کی خرید و فروخت کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں ملک میں دوران انتخابات ہر ایرے غیرے کرپٹ اور بد معاش اشرافیہ انتخابات میں حصہ لینے سے گریزاں رہے گی اور بے شمار افراد کا مفاد ختم ہونے کے باعث ایک طرف امیدوار ان کی تعداد اور انتخابی اخراجات میں واضح کمی اور دوسری طرف نیک اور صالح لوگ جو کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں انہیں خدمت خلق کا موقع میسر آئے گا اورگندی اور بے لگام سیاست کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

آخری بات ریاست مدینہ کا نعرہ لگانا کوئی بری بات نہیں چاہے وہ کوئی بھی لگائے مگر وہ فریب نہ ہو جہاں سیدنا عمرؓ سے ایک عام فرد یہ سوال کر سکے کہ ایک چادر میں یہ کرتا کیسے بنا؟ اور جہاں وقت کے سپہ سالار خالد سیف اللہؓ کو ہر وقت معزول کرنے کا اختیار خلیفہ ٔ وقت کو ہو اور جس پر کوئی سوال نہ کر سکے جہاں ہر قاضی کے انصاف کو ہر وقت جانچا جا سکے اور ان کے غلط فیصلوں پر ان کے خلاف تادیبی کاروائی ممکن ہو سکے جہاں ہر مسافر عورت کی زچگی کا عمل خلیفہ وقت کی اہلیہ اور خود خلیفہ وقت انجام دینے میں کوئی عار محسوس نہ کریں۔ اسے کہتے ہیں ریاست مدینہ اور والی ریاست مدینہ جو سابقہ حکومت اپنے نعروں اور دعووں کے باوجود نہ دے سکی اب موجودہ حکومت کے لیے حسین موقع ہے کہ وہ یہ کر گزریں۔