آزادی ٔ صحافت پر پابندیاں

340

آزادی صحافت کی بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر اس کی لاج رکھنا بہت مشکل آج صحافیوں اور صحافی کارکنوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، اخبار اور چینل بھی بے شمار ہیں، حکومتیں بھی بظاہر جمہوری ہیں، پابندی بھی بظاہر نظر نہیں آ رہی تو پھر صحافت خوفزدہ کیوں نظر آ رہی ہے؟ مقابلہ کرنے کی سکت کیوں کمزور نظر آرہی ہے؟ پابندی لگانے والے ماضی میں پابندی لگا کر پابند سلاسل کرکے آزما چکے ہیں۔ پابندیوں ہی سے ’’فیک نیوز‘‘ جنم لیتی ہیں۔ جن لوگوں نے آزادی صحافت کا علم قیام پاکستان کے بعد سے بلند رکھا تھا وہ اپنا کام بھی جانتے تھے اور ذمے داری بھی، ان میں لڑنے کا جذبہ بھی تھا اور کام سے بھی وہ غافل نہیں تھے۔ نثار عثمانی مرحوم ایک مرتبہ جیل میں مشقت کرتے ہوئے بولے ’’چلو اچھا ہوا کچھ اور کام بھی سیکھ لیا جو بے روزگاری میں کام آسکتا ہے‘‘۔
یہ آئیڈیل صورتحال نہیں ہے۔ تقسیم جدوجہد کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ اس سے صرف فائدہ تقسیم کرنے والے کو ہوتا ہے۔ آج میڈیا کو جس دبائو کا سامنا ہے اور صحافیوں اور کارکنوں کو اپنے مستقبل کا وہ صرف اتحاد سے ہی دور ہوسکتا ہے۔ مالکان، مدیروں اور صحافیوں کا آپس میں اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ صحافی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا انسان چھوٹا بڑا ہوتا ہے۔ یہ لڑائی اتحاد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ مقدمات کل بھی بنتے تھے اور آج بھی بنتے ہیں آج صحافی کو جان کا بھی خطرہ ہے اور نوکری کا بھی، پہلے پابندی لگانے والے کا بھی پتا تھا اور قانون کا بھی۔ آج بھی صحافت خطرے میں ہے آج بھی اخبارات کے صفحات کم ہو رہے ہیں، آج بھی کسی نہ کسی شکل میں سنسر شپ، یا ٹیلی فون کال پر پروگرام روک دیا جاتا ہے۔ آج بھی اشتہارات کی بندش ہے۔ تو پھر کیا آمریت اور کیا جمہوریت؟
پاکستان میں اکثر حکومتیں آزادی صحافت کی بات تو کرتی ہیں مگر اس آزادی کو برداشت نہیں کرتیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ہمیں مارشل لا کے صدمے برداشت کرنے پڑے تھے۔ سنسر شپ، پابندیاں، مارشل لا دور میں اعلانیہ جبکہ جمہوری دور حکومت میں غیر اعلانیہ طور پر حکومتوں کا رویہ ایسا ہی رہا۔ حکومتی دبائو ہر دور میں رہا، آج کی اپوزیشن مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں محمد نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں میڈیا کو معاف نہیں کیا تھا۔ طوالت سے بچنے کے لیے مجھے اس بات کو ماننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ بظاہر ملک میں میڈیا آزاد لیکن آج بھی صحافت پابندیوں کا شکار ہے۔ حکومتی پابندیاں ایک طرف، معاشی دبائو بھی حق اور سچ کی بات کو ظاہر کرنے میں رکاوٹ ہے۔ فری لانسر صحافی پولیس کے روایتی کردار کے سامنے طاقتور نہیں۔ صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا جاتا ہے سب سے بڑھ کر باہمی اختلافات بھی آئیڈیل ماحول میسر نہیں آنے دیتے۔ حکومت جو مرضی کہتی رہے صحافت ریاستی، معاشرتی اور معاشی دبائو کا شکار ہے۔
عالمی منشور برائے انسانی حقوق کے آرٹیکل 19 میں لکھا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اس کو ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ ہر شخص آزادی کے ساتھ بغیر کسی قسم کی مداخلت کے اپنی رائے پر قائم رہے اور جن ذرائع سے بھی چاہے ملکی سرحدوں کے حائل ہوئے بغیر معلومات اور خیالات کا حصول اور ترسیل کرے سب سے بڑھ کر معلومات تک رسائی انسان کا فطری حق ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 اور A-19 آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ آرٹیکل 19 میں لکھا ہے کہ ہر شہری کو تقریر و تحریر، اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق ہوگا، پریس آزاد ہوگا۔
اپوزیشن کے دور میں میڈیا اچھا لگتا ہے اور حکومت میں آکر یہی میڈیا طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ ریاستی ادارے منصوبہ بندی سے میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں اشتہارات کا اجراء اور بندش سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے جس سے میڈیا ہائوسز حکومت کے تابع ہوا کرتے تھے۔ پاکستان میں حکومت بدلی تو میڈیا پر دبائو کے طریقے بھی بدل گئے۔ سوشل میڈیا پر حکومتی موقف سے اتفاق نہ کرنے والے میڈیا پرسنز کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ یہاں تک کہ کفر کے فتوے اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی مہم ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ حکومت کچھ بھی کہے تحریک انصاف کو میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کا سامنا ہے۔ لندن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں عالمی میڈیا نے شاہ محمود قریشی کا بائیکاٹ کیا تھا اور ایک صحافی نے وزیر خارجہ کو کہا آپ نے پاکستان میں سچائی کا گلہ گھونٹ دیا ہے میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ حکومتی بیانات کچھ بھی ہوں ملک بھر میں صحافیوں کا احتجاج حکومت کے تمام دعووں کی نفی ہے۔ آزادی اظہار محض صحافیوں کا مسئلہ نہیں یہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ سیاسی جماعتیں سیاست چمکانے کے لیے نہیں آزادی صحافت کے لیے صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہوں۔ صحافت اور سیاست میں فرق ہے تحریر صحافت کے زمرے میں آتی ہے تقریر نہیں۔
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اقتدار میں آنے سے پہلے آزادی صحافت کے حق میں مدلل تقریریں کرتے اور صحافی برادری خوش ہوتی تھی کہ وہ نہ صرف آزادی صحافت کا دفاع کریں گے بلکہ پاکستان کے صحافیوں کے جملہ مسائل حل کریں گے۔ بدقسمتی سے ان کے نادان وزیروں اور مشیروں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انہیں صحافیوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کرکے گمراہ کر دیا ہے اور آزادی صحافت پر سخت پابندیاں لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ کورونا وائرس اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کے ہزاروں صحافی بیروزگار ہو گئے ہیں یا انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بچوں کے اسکولوں کی فیسیں دینا بھی مشکل ہو رہی ہیں اس کے علاوہ علاج کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں مہنگی دوائیں خریدنا ان کے بس سے باہر ہے۔ اخباری صنعت پر ایک زبردست بحران آیا ہوا ہے اور بہت سارے اخبارات بند ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان ایک اچھے شفیق اور ہمدرد انسان ہیں راقم الحروف کی ان سے مودبانہ درخواست ہے کہ وہ صحافت کی آزادی پر عائد پابندیوں کو ختم فرمائیں اور اخباری صنعت کو معاشی بحران سے نجات دلائیں۔ انتہائی ممنون و مشکور رہوں گا۔