آنے والا وقت اور پانی کا مسئلہ

724

ان دنوں جب وطنِ عزیز میں کرسی کے لیے گھمسان کی جنگ جاری ہے، ڈیمز میں پانی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق ڈیمز میں جتنا پانی آرہا ہے وہ تقریباً سارا ملکی ضروریات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ارسا کے مطابق اس وقت پانی کی قلت چالیس سے پچاس فی صد ہے جس کو صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان اور بھارت آبی تناعات پر بات چیت نئی دہلی میں ہوگی۔ دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے پانچ رکنی پاکستانی وفد بھارت گیا ہے۔ مذاکرات میں آنے والے دریائوں میں سیلاب کی پیشگی اطلاع پر بات ہوگی اور رپورٹ پر دستخط ہوں گے۔ پاکستان کو بھارت کی طرف سے دریائے چناب پر بنائے جانے والے ہائیڈرو پاور کے تین بڑے منصوبوں پر اعتراض ہے۔ بھارت نے کیرو ہائیڈرو پاور منصوبہ پر کام شروع کیا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زرعی شعبہ کو سنگین خطرارت درپیش ہیں اور پاکستان میں 80 فی صد رقبہ پانی کی قلت سے متاثر ہے۔ آبی ذخائر نہ ہونے اور دریائوں میں صنعتی اور شہروں کا آلودہ پانی شامل ہونے کی وجہ سے آبی حیات کو شدید نقصان کے علاوہ زرعی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے۔ بلاشبہ ملک بھر میں پانی کے ذخائر میں کمی کے پیچھے ہماری حکومتوں کی عاقبت نااندیشانہ پالیساں کارفرما ہیں۔ اگر پانی کے مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے وقتی اور قلیل المدتی حل تلاش کرلیے جاتے تو آج ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ عفریت کی شکل اختیار نہ کرتا۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاکستان آنے والے دریائوں پر سیکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرلیے اور اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ بھارتی عدالت عظمیٰ سے پاکستان آنے والے دریائوں کا رخ موڑنے کا بھی فیصلہ لے لیا۔ اسی تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں اور اس وقت ہم آبی قلت کے بحران کے دہانے تک آپہنچے ہیں۔ اس بحران میں بھارتی سازشوں کے علاوہ اپنی بے تدبیری کا بھی عمل دخل ہے کہ جس سے پانی کا بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔ صوبوں کے مابین دریائوں کے پانی کو تقسیم کرنے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ 29 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گرتا ہے جبکہ دنیا بھر میں اوسطاً یہ شرح 8.6 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دن کی ہے۔ دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40 فی صد ذخیرہ کیا جاتا ہے، پاکستان دستیاب پانی کا محض 10 فی صد ذخیرہ کرتا ہے۔ ہر سال ضائع ہونے والے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلا ڈیم جتنے تین بڑے ڈیم درکار ہیں۔
ہم بھارت کی آبی جارحیت کا شکار ہوچکے ہیں۔ بھارت جب چاہتا ہے ہمارے حصے کا پانی روک لیتا ہے، جب چاہتا ہے زائد پانی بغیر اطلاع کے چھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں سیلاب آجاتا ہے۔ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا میں بھی مٹی بھرنے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحت کم ہورہی ہے۔ تربیلا ڈیم میں یومیہ پانچ لاکھ ٹن مٹی پانی کے ساتھ آتی ہے، اگر اسی طرح تربیلا میں مٹی آتی رہی تو 30 سال کے بعد تربیلا میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ ماحولیاتی امور کی نگرانی کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائوں میں جہاں سے پانی آتا ہے وہاں درختوں کی کٹائی اور شدید بارشوں کے باعث اچانک سیلاب آنے کی وجہ سے ڈیموں میں پانی کے ساتھ آنے والی مٹی کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ مٹی بھر جانے سے تربیلا میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 9.6 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہوکر اب 6 ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ ارسا کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف تربیلا ڈیم کی معیاد بڑھ جائے گی بلکہ 8 ملین ایکڑ فٹ پانی بھی ذخیرہ ہوگا۔
پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے جہاں کی 60 سے 70 فی صد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ ضروریات ِ زندگی کے لیے اسی پانی پر انحصار کرتی ہے۔ تاہم تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے دبائو اور موسمی تبدیلیوں کے باعث بارشوں میں سالانہ کمی کی وجہ سے پانی کا یہ ذخیرہ تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ ماہرین آب پاشی اور زراعت کے مطابق پاکستان کے گنجان آباد اور زرعی پیداوار کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ شہر لاہور میں پینے کا صاف پانی محض اگلے دس برس میں ختم ہوسکتا ہے۔ زیرزمین پانی لاہور کو پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہے۔ واسا نے ٹیوب ویل لگا رکھے ہیں جو روزانہ پینے کا پانی نکال رہے ہیں، جو زیر زمین پانی کی کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دریائے راوی میں پانی کی روانی میں کمی ایک اہم مسئلہ ہے اور نکاسی کے پانی کی صاف پانی میں شمولیت سے زیرِ زمین پانی کے ذخیرے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ زمین کے نیچے موجود پانی کا ذخیرہ جسے ایکوی فائر بھی کہتے ہیں دراصل ایک پیالے کی مانند ہے۔ ہم جتنا پانی اس پیالے سے نکالتے ہیں، اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اتنا ہی پانی اس میں واپس بھی جائے، لیکن لاہور میں ایسا نہیں ہورہا۔ گو کہ لاہور میں زیر زمین پانی کا ذخیرہ محدود نہیں ہے یعنی اس میں پانی مختلف جگہ سے بھی آتا رہتا ہے مگر اس کے باوجود یہاں پانی کی سطح 100 فٹ نیچے چلی گئی ہے اور آلودگی کی وجہ سے یہ پانی پینے کے قابل نہیں رہا ہے۔ کئی مقامات پر لاہور میں 600 سے 700 فٹ تک بورنگ کی جارہی ہے تب جا کر صاف پانی ملتا ہے۔ جس قدر کھدائی بڑھائی جائے گی اتنا ہی زیادہ پانی میں آرسینک یعنی سنکھیا ملنے کا خطرہ ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخیرے کو بحال کرنے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ دریائے راوی تھا، مگر اس میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پانی بتدریج کم ہوا ہے۔ اس کے علاوہ تین بڑے ڈرین دریا میں گرتے ہیں جن کے باعث پانی میں ہر قسم کی ٹھوس اور مائع آلودگی شامل ہوتی ہے جب یہ پانی زیر زمین جاتا ہے تو صاف پانی کی اوپری سطح کو آلودہ کرتا ہے اس طرح وہ پینے کے قابل نہیں رہتا۔
دوسری جانب کراچی میں پانی کے معیار کا مسئلہ اس لیے زیادہ گمبھیر ہے کہ یہاں طرح طرح کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور مسائل سے نمٹنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ان حالات میں نہ صرف کراچی میں سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے لیے ڈی سیلی نیشن پلانٹ نصب کرنے کی ضرورت ہے بلکہ سمندر کنارے آباد سندھ اور بلوچستان کے ساحلی شہروں اور قصبوں میں بھی ڈی سیلی نیشن پلانٹ نصب کرکے پانی کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ تقریباً ایک دہائی میں سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے شعبے میں بہت ترقی ہوئی ہے۔ اس شعبے میں سب سے آگے اسپین ہے، جہاں کئی عشروں سے سمندری پانی سے نمک کو الگ کیا جارہا ہے یا پھر سنگا پور، جو میٹھے پانی کے ضمن میں ہمسایہ ملک ملائیشیا پر انحصار کم کرنے کا خواہاں ہے۔ اسرائیل میں بھی ایسے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ مزید اچھی خبر یہ ہے کہ اب ایسے بعض پلانٹس شمسی اور ہوائی توانائی سے حاصل کی گئی بجلی سے چلانے کے کامیاب تجربات ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب اس طریقے پر عمل کرکے میٹھا پانی حاصل کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے بعد اسرائیل بھی پانی کی بچت کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔