لیبر عدالتوں میں بھی اصلاح کی جائے

222

سرکاری اداروں کے خلاف جائز شکایتیں صرف 60 دن میں حل کروانے کے بعد جس طرح پورے ملک میں عوام کا اعتماد وفاقی اور صوبائی محتسب اعلیٰ کے ادارے پر بڑھا ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ 10 سے 12 سالوں میں لاکھوں عوام کو اس ادارے سے فائدے ملا ہے۔ مگر اس تیز ترین فائدہ اور انصاف کو دیکھتے ہوئے ایک افسوس ضرور ہوتا ہے کہ اس کے نتائج آنے کے بعد کم از کم لبیر عدالتوں، اتھارٹی معاوضہ جات کے لیے بھی ایسے قوانین وضع کیے جائیں تا کہ یہاں بھی مزدوروں کو
فوری انصاف ملے۔ سندھ ہائی کورٹ کے ذمہ داران صرف ایک دن کے لیے کسی بھی لیبر عدالت کی کازلسٹ چیک کریں تو انہیں پتا چلے گا کہ کتنے سالوں سے مزدوروں کے مقدمات چل رہے ہیں۔ جب کہ یہی حال اتھارٹی معاوضہ جات کا بھی ہے۔ حتیٰ کہ گروپ انشورنس اور ڈیتھ گرانٹ کے لیے بھی مزدوروں کے 5 سے 10 سال جائع کروا دیے جاتے ہیں۔ یہی حال EOBI کا ہے اور ورکر ویلفیئر بورڈ میں تو پلاٹ اور فلیٹ مزدوروں کے نام پر لیے جاتے ہیں مگر وہاں راج اسٹیٹ بروکروں کا ہے۔ اور ڈیتھ گرانٹ انہی کی منظور کی جاتی ہے جو ان کے منظور نظر ہوتے ہیں۔ جن میں 80 فیصد جعلی کیسز ہوتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ اور صوبائی حکومت سے گزارش ہے کہ لیبر عدالتوں کے لیے بھی قوانین وفاقی اور صوبائی محتسب اعلیٰ کی طرز پر بنائے جائیں تا کہ مزدور بھی فوری تحفظ حاصل کرسکیں۔ سیسی اور EOBI میں ٹھیکیدار کے بجائے کمپنی کے نام پر ہر مزدور کو رجسٹرڈ کیا جائے اور لیبر عدالتوں کے نگراں جج صاحب سے گزارش ہے کہ مزدوروں کے جائز حقوق کے لیے لیبر عدالتوں اور اتھارٹی معاوضہ جات کو پابند کردیں کہ وہ لیبر قوانین کو تیز تر اور آسان بنائیں۔ اگر مزدور خوش حال ہوگا تو ملک بھی خوشحال ہوگا۔
(مرسلہ: سعید الرحمن قریشی، سماجی کارکن، دائود چورنگی، کراچی)