تاجر برادری کا شرح سود میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ

180

کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن( پائما) کے چیئرمین ثاقب نسیم ،وائس چیئرمین سندھ بلوچستان ریجن محمد جنید تیلی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں یکدم 150 بیسس پوائنٹس ( ڈیڑھ فیصد) اضافے سے 13.75 فیصد کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل سے اپیل کی ہے کہ کاروبار وصنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے فوری طور پر شرح سودمیں اضافے کا فیصلہ واپس لیا جائے اور بتدریج اسے سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے تاکہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والے سنگین معاشی بحرانوں سے نمٹنے میں مدد مل سکے اور ملکی کاروباری ادارے اور صنعتیں خاص طور پر چھوٹی و درمیانے درجے کی صنعتیں( ایس ایم ایز) اپنی بقا قائم رکھ سکیں۔پائما رہنماؤں نے کہا کہ کرونا وبا نے پہلے ہی تجارت و صنعت کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے جبکہ ملکی موجودہ سیاسی صورتحال نے بھی بزنس کمیونٹی کومشکل میں ڈالررکھا ہے اور ان کے لیے موجودہ حالات میں کاروبار کرنا اور صنعتیں چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جبکہ رہی سی کسر ڈالر کی اونچی اڑان نے پوری کردی اور اب شرح سود میں اضافہ معیشت کو برباد کردے گا۔انہوں نے کہا کہ ملک کے معاشی مفاد میں ایسی پالیسیاںوضع کی جائے جس سے کاروباری وصنعتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو۔ حکومت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بہترین معاشی پالیسیاں وضع کرے تاکہ ملک کو دوبارہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکے۔ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری(کاٹی) کے صدر سلمان اسلم نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ شرح سود 13.75 فیصد کرنے سے معاشی سست روی پیدا ہوگی اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مالی بحران میں مبتلا عوام مزید مہنگائی کے متحمل نہیں ہوسکتے، حکومت شرح سود کو خطہ کے دیگر ممالک کی شرح کے مطابق رکھے۔ سلمان اسلم نے کہا کہ پاکستان میں شرح نمو توقعات سے زیادہ بڑھی ہے ، کیوں کہ گزشتہ ماہ7 اپریل کو اسٹیٹ بینک نے ہنگامی طور پر مانیٹری پالیسی کا اعلان کرکے شرح سود میں غیر معمولی طور پر 2.5 فیصد کا اضافہ کیا تھا جس سے شرح سود 12.25 فیصد کیا گیا تھا، ڈیڑھ ماہ میں شرح سود میں 4فیصد اضافے سے اب شرح سود 13.75 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ صنعتوں کو تباہی سے بچانے کے لیے شرح سود میں کمی کی جائے۔سلمان اسلم کا کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافے کے باعث ملک میں انڈسٹرلائزیشن کا عمل رک گیا ہے جب کہ چلتی ہوئی صنعتوں اور کاٹیج انڈسٹری کو بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں صنعتکاروں کو پہلے ہی پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث برآمداتی اہداف حاصل کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں، لہذا موجودہ شرح سود پر کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ صدر کاٹی نے کہا کہ ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بحران کو مدنظر رکھا جائے تو اسٹیٹ بینک کا فیصلہ انتہائی مایوس کُن ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں جہاں ایک جانب حکومتیں گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے پیکجز کا اعلان کرتے ہیں اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ سے ملک کے تاجر و صنعتکار وں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔صدر کاٹی نے کہا کہ ایک ایسا فیصلہ کیا گیا ہے جو نہ ہی صنعتوں کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی موجودہ معاشی صورت حال میں مددگار ثابت ہوگا۔صدر کاٹی نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورت حال کو فوری نوٹس لیں اور صنعتوں کی بحالی اور بہتر کارکردگی کے لیے شرح سود میں کمی کی ہدایت جاری کریں۔ انہوں نیمزید کہا کہ ملک کے معاشی مسائل کا حل صنعتوں کی بہتر کارکردگی اور مزید صنعتیں لگنے ہی میں ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر عبدالرشید نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں150 بیسس پوائنٹس، ایکسپورٹ فنانسنگ اسکیم( ای ایف ایس) اور لانگ ٹرم فنانسنگ فیسیلٹی( ایل ٹی ایف ایف) کی شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس کو مسترد کردیا ہے اور حکومت سے فوری طور پر حالیہ اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہ کہا ہے کہ اگر فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو ملکی برآمدات پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ایک بیان میں عبدالرشید نے کہا کہ خطے میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں شرح سود انتہائی بلند سطح پر ہے کیونکہ 13.75فیصد تک پالیسی ریٹ کا بڑھنا معیشت کو تباہ کردے گا۔ انہوں نے کہا کہ زائد یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے پہلے ہی صنعتوں کی پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ زائد شرسود سمیت ای ایف ایس اور ایل ٹی ایف ایف کی شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس کا اضافہ برآمدات پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرے گا۔صدر سائٹ ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے اس وقت ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو معیشت کو متاثر نہ کرے اور تاجروصنعتکار برادری کے ساتھ مشاورت سے معاشی پالیسیاں ترتیب کی جائیں تاکہ کاروباری وصنعتی سرگرمیوں کو بلارکاوٹ جاری رکھا جاسکے بصورت دیگر صنعتوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔