مائی لارڈ! پلیز انصاف، پلیز غیر جانبداری

571

صاحبو! کوئی ہے جو بتائے کہ اس ملک میں آخر ہو کیا رہا ہے۔ کیوں سب اس ملک کو تباہ اور اپنے اداروں کو بے توقیر کرنے میں لگے ہیں؟ سوائے عدالت عظمیٰ کے۔ ہمارے نظام انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فیصلوں کے لیے عمر خضر درکار ہوتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ایک حالیہ معاملے میں اس داغ کو دھودیا۔ ایک دن بڑے عوامی جلسے میں عمران خان نے عدالت عظمیٰ سے نوٹس لینے کا مطا لبہ کیا اگلے دن عدالت نے سوموٹو لے لیا۔ اب ہماری عدالتوں میں دیر نہیں ہے۔ اندھیر کے بارے میں مثبت رپورٹنگ کی تو آپ کھلکھلا کر ہنس پڑیں گے۔ یہ کریڈٹ شہباز شریف حکومت کو جاتا ہے جس کے خلاف چھے ہفتوں میں ہی عدالت سوموٹو نوٹس لینے پر مجبور ہوگئی۔ عمران خان کی پونے چار سال حکومت میں عدالت عظمیٰ نے صرف ایک سوموٹو لیا تھا وہ بھی کوویڈ کے معاملے میں۔ اچھا ہوا شہباز شریف جلد ہی نکالے جارہے ہیں ورنہ ہمیں خدشہ ہے کہ بطور وزیراعظم اگر وہ کوئی دعوت بھی کرتے تو عدالت عظمیٰ سو موٹو لے لیتی کہ بریانی میں گوشت کم کیوں ڈالا اور میٹھے میں چینی ڈیوڑھی کیوں ہے۔
عدالت ’’عظمیٰ‘‘ نے ہائی پروفائل کیسز میں حکومتی ارکان کی مداخلت کے خلاف سوموٹو لیتے ہوئے ان ہائی پروفائل مقدمات میں خصوصی عدالت اور نیب میں تقرر وتبادلوں پر تا حکم ثانی پابندی لگادی ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ کے کیسز میں تفتیشی افسران کو کن بنیادوں پر ہٹایا گیا۔ چھے ہفتوں میں ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں کی فہرست پیش کریں۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے گزشتہ چھے ہفتوں کے درمیان پراسیکیوشن اور تفتیش کے محکموں میں ہونی والی تقرریوں اور تبادلوں کی تفصیلات طلب کی ہیں اور کہا ہے کہ کس بنیاد پر اور کن کن لوگوں کے تقرر اور تبادلے کیے گئے ہیں اور حکم دیا ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش کرنے والوں کے تبادلے تا حکم ثانی نہیں کیے جائیں گے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ گزشتہ چھے ہفتوں کے دوران جن افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ہیں ان کی فہرست پیش کریں اور بتا یا جائے کہ حکومت نے اگر ای سی ایل پر نام دالنے اور نکالنے کا طریق کار بدلا ہے تو عدالت کے سامنے رکھیں۔
عدالت عظمیٰ نے یہ نوٹس کسی تحقیقاتی رپورٹ، ٹھوس شواہد یا عدالت کے سامنے پیش کردہ واقعے کی بنیاد پر نہیں لیا ہے بلکہ ایک ساتھی جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی صاحب کے ’’تاثر‘‘ کی بنیاد پر لیا ہے۔ ساتھی جج کے شک اور اس تصور کی بنیاد پر لیا ہے کہ فلاں فلاں تعیناتیوں اور تبادلوں کی وجہ سے ممکنہ طور پر فلاں فلاں مقدمے متاثر ہوسکتے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی لاہور ہائی کورٹ کی بنچ نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور جنرل پرویز مشرف کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیا تھا۔ ان کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر چیف جسٹس عطا عمر بندیال کی سربراہی میں بنچ کا حصہ ہوں گے۔ بنچ کی تشکیل میں حسب سابق کسی سینئر جج کو شامل نہیں کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو دوسرے نمبر پر سینئر جج ہیں اور مستقبل میں چیف جسٹس ہوں گے، نمبر تین پر جسٹس سردار طارق یا نمبر چار پر موجود جج شامل نہیں ہیں۔ کچھ سال سے روایت بنتی جارہی ہے کہ بیش تر آئینی معاملات میں جو بنچ تشکیل دیے جارہے ہیں ان میں سینئر جج صاحبان کو شامل نہیں کیا جارہا اور ان سے جونیئر جج صاحبان کا ہی ایک گروپ ہے جن کی شمولیت سے بنچ تشکیل دیے جارہے ہیں۔ بھارت میں ایسی صورت پر سینئر جج صاحبان نے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کردی تھی۔ جس کشیدہ سیاسی ماحول میں یہ سوموٹو لیا گیا ہے، اس تاثر کی نفی کرنا بہت مشکل ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب نے یہ سوموٹو عمران خان کے دبائو کی وجہ سے لیا ہے۔ حالیہ دنوں میں عدلیہ کی جانب سے پی ٹی آئی اراکین کو ملنے والا عدالتی ریلیف ہو، 63Aکے تحت صدارتی ریفرنس پر عدالت عظمیٰ کی تشریح ہو یا پھر شہباز حکومت کی جانب سے تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت پر موجودہ سوموٹو، عوامی سیاسی اور سماجی حلقوں میں اسے عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر دبائو اور عدلیہ کے ذریعے شہباز حکومت کو ایک میسج کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے نامور وکیل عبدالقیوم صدیقی جو عدالت میں موجود تھے ان کا کہنا ہے کہ کوہاٹ کے جلسے میں عمران خان نے ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی کی تعریف کی تھی، ڈاکٹر رضوان کے بارے میں بات کی تھی بالکل وہی لفظ جسٹس عمر عطا بندیال کی زبان سے انہوں نے سنے ہیں۔
عدالتی فیصلوں کی، محترم جج صاحبان کی، عزت تب ہی کی جاتی ہے جب ان میں تسلسل ہوتا ہے۔ جب عدالتی اقدامات اور فیصلوں میں جانب داری نظر آتی ہے، ایک حکومت کے لیے الگ اور دوسری حکومت کے لیے الگ پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں تب وہ فیصلے چاہے انصاف پر مبنی ہی کیوں نہ ہوں، ان کی توقیر نہیں کی جاتی۔ آج سوموٹو میں لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کرنے، ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی اور ڈائر یکٹر رضوان کو تبدیل کرنے پر شہباز حکومت کو گھسیٹا جارہا ہے لیکن عمران خان حکومت میں سیکرٹریوں کو اس طرح تبدیل کیا جاتا رہا جیسے کتاب کے ورق الٹے پلٹے جاتے ہیں، جیسے بچوں کے ڈائپر بدلے جاتے ہیں، ایک دن ایک محکمے میں اور اگلے دن کسی دوسرے محکمے میں۔ ڈی پی اوز (ڈسٹرکٹ پو لیس آفیسرز) سیاسی جوڑ توڑ میں اس طرح تبدیل کیے گئے جیسے ان کی حیثیت ذاتی ملازم کی سی ہو۔ مرکز اور پنجاب میں دس بیس نہیں سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ کرپشن کے الزام میں ایک طویل فہرست ان لوگوں کی ہے جنہیں دودو، تین تین سال تحویل میں رکھا گیا لیکن کچھ ثابت نہیں کیا جاسکا۔ جب کہ چینی، آٹے اور ایل این جی میں حکومتی وزراء کی کرپشن نے ملک کی ایسی تیسی کرکے رکھ دی، ای سی ایل کا بے دردی سے استعمال کیا گیا لیکن عدالت عظمیٰ اور سوموٹو۔۔۔ واں ایک خاموشی تیری سب کے جواب میں۔ واں شراب کی دکانیں خالی کرنے پر بھی مومن سمجھا جارہا تھا یاں ایک دو گھونٹ میں ایمان بہتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کافر ڈکلیئر کیا جارہا ہے۔
مولوی تمیزالدین کیس سے لے کر پاناما تک ہماری عدالتی تاریخ یک طرفہ اور متنازع فیصلوں کا قبرستان ہے۔ عدالت عظمیٰ کے آستانہ عالیہ پر سوموٹو کی چادر شریف ایک الگ کرامت ہے۔ پتا ہی نہیں کن معامالات پر عدالت ازخود نوٹس لے سکتی ہے اور کن معاملات پر نہیں۔ پتا کھڑکنے پر دل دہل سکتاہے اور پرزور آندھیوں پر نبض حسب معمول رہ سکتی ہے۔ قاضی فائز عیسی مقدمہ نے ہمارے عدالتی نظام کو ہلا کررکھ دیا تھا۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کھل کر کہا تھا کہ خود وزیراعظم عمران خان نے مجھے جسٹس فائز عیسی کے خلاف انکوائری کا کہا تھا بعد میں عمران خان نے اسے حکومت کی غلطی تسلیم کی تب عدالت نے اس انتہائی اہم معاملے پر سوموٹو کیوں نہیں لیا؟ نیب کی انتقامی کاروائیوں اور یکطرفہ احتساب پر خود عدالت عظمیٰ نے تشویش اور برہمی کا اظہار کیا تھا تب سوموٹو کیوں نہیں لیا گیا، پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پراسیکیوشن نے عمران خان پر مقدمہ پر واپس لے لیا تب عدالت نے اس پر سوموٹو کیوں نہیں لیا۔ شہزاد اکبر واٹس اپ پر ججوں کو تبدیل کراتے تھے اس وقت سوموٹو کیوں نہیں لیا گیا۔ طلال چودھری اور دانیال عزیز کو جلسوں میں توہین عدالت پر سزا دی گئی، عمران خان ہر جلسے میں عدالت عظمیٰ کی تو ہین کررہے ہیں انہیں سزا کیوں نہیں۔ چھے ہفتے کے وزیراعظم کی کنپٹی پر عمران خان، آئی ایم ایف اور اسٹیبلشمنٹ کی پستول کا دبائو ہی کیا کم تھا کہ عدالت عظمیٰ نے بھی اس پر ریوالور تان دیا کہ خبردار تم ایف آئی اے کے افسروں کا تبادلہ نہیں کرسکتے۔ اٹھارہ اور انیس گریڈ کے افسروں کے تبادلے اور تقرر کیا اتنا ہی اہم کام ہے کہ عدالت عظمیٰ میں زیر التوا چالیس پچاس ہزار وہ مقدمات جن پر لوگوں کی زندگیاں منحصر ہیں انہیں چھوڑ کر اس معاملے کا محض تاثر کی وجہ سے نوٹس لیا گیا۔۔۔ مائی لارڈ۔۔ انصاف۔۔ مائی لارڈ۔۔ غیر جانبداری۔