!قوم کو کٹھ پتلی سمجھنے والی سیاسی جماعتوں کا مستقبل

461

ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لینے سے ایسا لگتا ہے کہ رواں سال اپریل میں قائم ہونے والی شہباز شریف کی مخلوط حکومت اب اسی شور شرابے میں ختم ہونے کے لیے تشویش ناک مراحل میں داخل ہوچکی ہے جس کی بازگشت میں یہ قائم ہوئی تھی۔ اگر آئندہ چند روز میں یہ ممکن ہوگیا تو یہ ملک کی چمپئن کہلانے والی جمہوری پارٹیوں کی ناکامی کہلائے گی۔ اگرچہ ملک میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو پہلی بار ناکامی نہیں ہوگی بلکہ اس سے قبل 1977 میں قائم ہونے والے نو جماعتی ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کو بھی ناکامی ہوچکی ہے۔ پاکستان جمہوری ملک تو ہے مگر بدقسمتی سے یہاں جمہوریت کا جمہوری جماعتوں ہی سے مقابلہ چلتا رہتا ہے۔ جمہوریت کی دعویدار جماعتیں اپنے مخالفین کو ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی حمایتی ہونے کا الزام عائد کرتی رہی ہیں لیکن قوم نے پہلی بار دیکھا کہ 2018 میں منتخب ہوکر پہلی بار اقتدار میں آنے والی عمران خان کی تحریک انصاف تمام الزامات کے باوجود ساڑھے تین سال اقتدار میں رہی اور پھر اس حکومت کو ختم کرنے کے لیے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ سامنے آیا اور جلد ہی مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایتی تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، گو کہ جمہوریت کے ہاتھوں ایک اور جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوا۔ مگر اصل ’فلم‘ اس وقت شروع ہوئی جب پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم والی حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ جس کو ملک کے ان ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن کو ایشیو بناکر پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرنے کے لیے مہم چلائی گئی تھی۔
اب مخلوط حکومت کے جمہوری چمپئنز ملک کی معاشی صورتحال کو لے کر نیندیں اُڑچکی ہیں۔ لیکن بیش تر حکمران چونکہ تجربہ کار ہیں تو انہیں اس خراب صورتحال کا وہ احساس نہیں ہورہا جو بحیثیت قومی رہنما انہیں ہونا چاہیے۔ یہ لوگ اب اپنی ہی حکومت اپنے ہاتھوں ختم کرنے کی تدابیر ڈھونڈ رہے ہیں مگر اس نکتے پر بھی ان اتحادیوں میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ انہیں عمران خان کی حکومت ختم کرنے اور اپنی حکومت کے قیام کا ہدف کے مطابق فائدہ نہ ہونا ہے۔ ان کے اہداف میں اپنے اور اپنے رہنماؤں کے چھوٹے بڑے سب ہی مقدمات کا خاتمہ اور ماضی کے حکومتی ادوار کے حساب سے سرکاری خزانے پے ہاتھ صاف کرنا تھا، جس میں وہ ناکام رہے۔ ادھر دوسری طرف بیش تر ادوار میں حکومت بنانے یا گرانے کے لیے دباؤ کو اپنی سیاست کا محور اور مقصد سمجھنے والی اور کسی بھی طرح اور کسی کے ساتھ بھی جمہوریت کے استحکام اور قوم کی بقاء کے نام پر حکومتوں سے چمٹی رہنے اور ماضی میں خوف اور دہشت کی علامت سمجھی جانے والی پارٹی بھی، اس بار تحریک انصاف کے لیے آستین کا سانپ بن کر ابھری، مگر اسے صدمہ یہ ہے کہ اس کردار کے بدلے میں دودھ کی وہ مقدار نہیں ملی جو اسے ملنی چاہیے تھی جبکہ اسے اس بات کا بھی بہت خوب یقین ہوگیا کہ اس کا متحدہ کے لبادے میں ’مہاجر چورن‘ اب مزید نہیں بکے گا۔ مولانا کو بھی اپنے ہدف کے مطابق وہ ڈیزل نہیں مل سکا جس کا انہیں یقین تھا۔
اب مخلوط حکومت میں موجود قوم یا اپنے ووٹرز کے ساتھ مخلص جماعتوں کے پاس اپنی بقاء کے لیے اس حکومتی اتحاد سے اعلانیہ علٰیحدہ ہوکر اور اپنے ووٹرز سے معافی مانگ کر اگلا سفر کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ویسے تو ملک و قوم کو کٹھ پتلی سمجھ کر نچانے والی جماعتوں کو اب مزید پنپنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے تاکہ قوم اور ملک کی ترقی کا روشن راستہ نظر آسکے۔