وطن عزیز کے نا دان عزیز

364

شیخ رشید نے ایک بار پھر عدالتی تاریخوں کی روش اختیار کر لی ہے سیاسی ماحول کی گٹھن سے نجات دلانے کے لیے پیر پگاڑا بھی قوم کو ایسی اطلاعات فراہم کیا کرتے تھے جو کچھ دیر کے لیے سکون کا باعث بنا کرتی تھی اس تناظر میں بعض سیاسی مبصرین کہا کرتے تھے کہ جھاڑو پھرنا ان کا تکیہ کلام ہوا کرتا تھا جب اپوزیشن حکومت کے رویے پر سراپا احتجاج بنتی تو پیر جی کہا کرتے تھے کہ جھاڑو پھرنے والا ہے آنے والے چند دن بہت اہمیت کے حامل ہیں اسی طرح شیخ رشید بھی جھاڑو پھرنے اور آنے والے چند دن بہت اہم ہیں کی رٹ لگائے رکھتے ہیں، موصوف کا تازہ ترین بیان ہے کہ آئندہ دس پندرہ دن بہت اہم ہیں لانگ مارچ جسے موصوف نے خونیں مارچ کا نام دیا ہے اس کے بارے میں کہا تھا کہ بیس مئی سے پہلے اس کا اعلان ہو سکتا ہے مگر عمران خان یوٹرن لے چکے ہیں۔

کبھی کبھی تو یہ گمان حقیقت لگنے لگتا ہے کہ شیخ رشید عمران خان کے نادان دوست ہیں بھلا یہ بات کہنے والی ہے کہ ہماری حکومت کی نااہلیت کا سارا ملبہ شہباز شریف کی حکومت پر آن گرا ہے اور یہ ملبہ اتنا زیادہ ہے کہ موجودہ حکومت اس کے نیچے دب کر مر جائے گی گویا! شیخ رشید نے اعتراف کر لیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی اتنی ناقص تھی کہ اس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ حالات کا کوئی بھی تھپیڑا اسے زمیں بوس کرسکتا ہے حالات اور واقعات ان کے بیان کی تائید کر رہے ہیں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی دراصل عمران خان کی کامیابی ہے کیونکہ ان کی نااہلیت نے انہیں سیاسی موت مار دیا تھا مگر عدم اعتماد کی کامیابی نے انہیں نئی زندگی دی ہے اور اب خان صاحب کی کھوئی ہوئی مقبولیت ان کی جھولی میں آگری ہے اور اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ہونے والے الیکشن کامیابی کی نوید لائیں۔

حالات اور واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیت سامنے آتی ہے کہ عمران خان کو سیاسی عدت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ حلالے کے لیے دوسری شادی کہ بھی ضرورت نہیں پڑے گی یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ جو سیاسی جماعتیں سیاست کو خانہ زاد سمجھتی ہیں اقتدار کی ہوس نے انہیں سیاسی غلام بنا دیا ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حالات ایسے ہی رہے تو پاکستان سری لنکا بن سکتا ہے شیخ جی پاکستان سری لنکا بن نہیں سکتا بلکہ بن چکا ہے اور المیہ یہ ہے کہ پاکستان کو سری لنکا بنانے کی سازش یا منصوبہ بندی آپ جیسے مہربانوں نے کی ہے سری لنکا کے صدر کسی کی بات نہیں مانتے اور پاکستان کے صدر مملکت عارف علوی بھی کسی کی بات نہیں مانتے کیا یہ ملک اور قوم سے دشمنی نہیں کہ پٹرول کی قیمت‘ قیمت خرید سے بھی کم کر دی گئی مگر اس ملک دشمنی کی قیمت حکومت پاکستان کو نہیں ریاست پاکستان کو بھگتنا پڑ رہی ہے یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ہر باشعور شخص کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ صدر محترم ملک و قوم کے بجائے اپنی قیادت کے وفادار رہے تو حکومت کے بجائے ریاست کو نقصان ہوگا۔

سری لنکا کی حکومت نے قومی حکومت کے قیام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے مزید چار وزراء نے حلف بھی اٹھا لیا ہے تاہم اپوزیشن جماعتیں گریز پا دکھائی دے رہی ہیں اور ان کے مظاہرے جاری ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ فوری انتخابات کرائے جائیں فوری انتخابات کی رٹ تو وطن عزیز میں بھی لگائی جا رہی ہے مگر یہاں قومی حکومت کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا کہ قومی حکومت میں سیاست دان بے روز گار ہوسکتے ہیں بلکہ بے روز گاری کے امکانات اتنے قوی ہیں کہ اس پر غور کرنا تو کجا سوچنا بھی مغز کھپانے کے مترادف ہے اور بد نصیبی یہ ہے کہ وطن عزیز میں کھپانے کا کام صرف اپنے عزیز و اقارب اور منظور نظر افراد کو ایسے اداروں میں ملازمت دلانا ہے جس کے وہ اہل نہیں ہوتے یوں ان کی نا اہلیت ریاست کو کمزور سے کمزور تر کرتی رہتی ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ اس کمزوری کو دور کرنے کے بجائے اس کو تقویت دی جاتی ہے جوں جوں سیاست دان طاقت ور ہوتے جاتے ہیں ریاست کمزور ہوتی جاتی ہے عمران خان اس کی نمایاں مثال ہیں ان کی قوت اور مقبولیت ریاست پاکستان کو اس حد تک نڈھال کرسکتی ہے جس کی بحالی کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے۔