نقطہ نظر

309

حکومت بھی کہیں موجود ہے؟؟
ملک تیزی سے عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے آئے روز دہشت گردی اور بم دھماکوں نے جہاں خوف وہراس کی کیفیت پیدا کر دی ہے وہیں یہ بات بھی روشن کی طرح عیاں ہے کہ عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کرنے کے بجائے ان سے دور بھاگتے ہیں ملک کو اس طرح کی مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کا اداروں پر اعتماد بحال کیا جائے مگر صورت حال یہ ہے کہ ہر طرح کا اعتماد اب صرف اور صرف سوشل میڈیا پر کیا جانے لگا ہے۔
حکومت قائم ہوگی یا نااہل قرار دی جائے گی، کسی ادارے کے خلاف مہم چلائے گی یا اس ادارے کے خلاف عوام غم وغصہ کا اظہار کریں گے ہر طرح کا فورم اب سوشل میڈیا بن گیا ہے ابھی چند سال قبل کی بات ہے گزشتہ حکمران پارٹی کے لیڈر اقتدار میں آنے سے قبل سوشل میڈیا پر پاکستان کے وزیراعظم بن گئے تھے۔ عوام کا سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا اور اس طرح کی سرگرمی جو پچھلی دہائیوں میں اہمیت رکھتی تھی اب اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہیں۔ بات کہیں سے کہیں نہ نکل جائے اس سے قبل، پچھلے کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہورہی ہے کہ ایک شخص نے کسی بوڑھے شخص کو موٹرسائیکل پر لفٹ دی لیکن کچھ آگے جا کر اُسے اندازہ ہوا کہ جسے اس نے لفٹ دی ہے وہ کوئی معذور بوڑھا نہیں بلکہ خود کش بمبار ہے بہر حال بغیر کسی حادثے سے دوچار ہوئے وہ شخص اس خودکش بمبار کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ واقعہ یا اس طرح کے اور واقعات جو روزانہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہوتے ہیں بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ان واقعات کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے سے معاملات ہائی لائٹ ضرور ہوتے ہیں مگر حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جاتے ہیں ان کا کوئی مستقل حل نہیں نکلتا۔ اور یہ کہ عوام کا اداروں پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے لوگ اس طرح کے واقعات کی رپورٹ لکھوانے سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ ایسے معاملات میں پولیس کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر واقعات کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔
کیا حکومت کے پاس عوام کے ایسے معاملات حل کرنے کے لیے پولیس اور سوشل میڈیا کے علاوہ کوئی ادارہ موجود ہے؟؟ لیکن لکھتے ہوئے قلم اس بات کو سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ملک میں کوئی حکومت بھی موجود ہے؟؟
صائمہ عبدالواحد، کراچی