ہر منظر کا ایک پس منظر ہوتا ہے

920

رمضان المبارک میں اس سال سیاسی ماحول کافی گرم رہا، تمام سیاسی پارٹیوں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ماحول کو گرم رکھنے میں حصہ بقدر جُثہ، حصہ ڈالا، اس دوران پاکستان میں چند اصطلاحات بھی خوب متعارف ہوئیں مثلاً سیلیکٹڈ، امپورٹڈ حکومت اور کمٹڈ ورکرز کی اصطلاحات بہت مشہور ہوئیں۔ ۲۰۱۸ء کے الیکشن کے بعد جو حکومت وجود میں آئی اس کے حصہ میں سلیکٹڈ کی اصطلاح آئی کیونکہ سیلیکٹرز نے خوب اس کی مدد کی۔ پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ایک مناسب تعداد باقی پارٹیوں سے نکال کر پی ٹی آئی کی چھتری کے نیچے جمع کی اور وہ سارے افراد وہ تھے جو اپنی پارٹیوں میں ہمیشہ جیتنے والے تھے۔ سیلیکٹرز نے پی ٹی آئی کے حق میں دوسرا کام یہ کیا کہ پی ٹی آئی کی پبلسٹی کے لیے پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا خوب استعمال کیا۔ سیلیکٹرز نے پی ٹی آئی کے حق میں تیسرا کام یہ سر انجام دیا کہ عوام کو پی ٹی آئی کی طرف ہانکنے میں انسانی اور مالی وسائل کا خوب استعمال کیا۔ سیلیکٹرز نے پی ٹی آئی کے حق میں فضاء کو یقینی بنانے کے لیے اور ن لیگ کے ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے ٹی ایل پی اور اللہ اکبر پارٹیوں کو کرین اور کرسی کے نشان پر میدان میں اُتارا اور خصوصاً ٹی ایل پی نے ۲۰ لاکھ سے زاہد ووٹ لے کر سیلیکٹرز کو بھی حیران اور کسی قدر سے پریشان بھی کر دیا۔ چوتھاکام یہ کیا کہ مختلف پارٹیوں کے متوقع جیتنے والے امیدواران کو فون کیے کہ وہ حکومت بنانے میں پی ٹی آئی کی مدد کریں جس نے حامی بھر لی تو وہ جیت گیا بصورت دیگر یقینی جیتنے والے بھی ہار گئے۔ پانچواں کام یہ کیا کہ دوران گنتی آر ٹی ایس سسٹم کو بیٹھا دیا اور نتائج کنٹرول ہونا شروع ہو گئے یہاں تک کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد پوری کر دی گئی۔ یہاں تک سیلیکٹرز نے پہنچا دیا کہ پی ٹی آئی کی سیلیکٹڈ حکومت بن گئی۔ اپوزیشن پہلے دن سے اس کے خلاف تھی اور پی ٹی آئی حکومت کو ان اصطلاحات سے نوازتی رہی، جماعت اسلامی اور اپوزیشن نے سیلیکٹڈ حکومت اور سیلیکٹرز کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اب اگر سیلیکٹڈ حکومت کی کارگردگی کو دیکھا جائے تو انہوں نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا، ملک میں کرپشن کے خاتمے کے نعرے لگے لیکن عملاً کرپشن تمام سرکاری اور نجی اداروں میں پہلے سے بھی بڑھ گئی۔ اور خصوصاً میگا کرپشن کے سارے نشانات مرکزی کابینہ کی طرف جارہے تھے۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ ہوا لیکن نوکریاں تو درکنار کروڑوں لوگوں کو بے روزگار کر دیا گیا۔ ۵۰ لاکھ گھروں کا وعدہ ہوا جو ایفاء نہ ہو سکا البتہ پی ٹی آئی نے پاکستان میں پرندوں کو درختوں پر ضرور گھونسلے بنا کر دیے یہ کام قابل قدر تھا معلوم نہیں کس تھینک ٹینک کا آئیڈیا تھا چلو کسی پرندے کو تو ریلیف ملا ہو گا۔ پی ٹی آئی کے حکمران نے اداروں کے ریفارم کا وعدہ کیا جو ایفاء نہ ہو سکا ملک میں احتساب کا وعدہ کیا وہ بھی ایفاء نہ ہو سکا اس دوران سیاسی قائدین اور پارٹیوں میں کشیدگی بہت پڑھ گئی اور سیاسی ورکرز لعن طعن میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں البتہ اس عرصہ میں تعمیری کام تو کچھ نہ ہو سکے لیکن ملک میں ایسے قوانین ضرور بنائے گئے جن کے ذریعے خاندانی نظام ٹوٹ جائے۔ قادیانیوں کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں۔ وقف کے قوانین کو مشکل تر بنا دیا گیا یعنی دین کا کام سرانجام دینے والوں کو چاروں اطراف سے خوب گھیرا گیا یہ تھی سلیکٹڈ حکومت یعنی عمران خان کی حکومت۔
دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپوزیشن نے حکمرانوں کو بھی بُرا بھلا کہا لیکن ان کی تنقید کے نشانے پر سیلیکٹرز بھی رہے اور کئی جلسوں میں انہوں نے ان کے نام لے کر لتاڑا بالآخر سیلیکٹرز اس نتیجے پر پہنچے کہ انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں کو یقین دلایا کہ تم اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائو ہم تمہاری مدد کریں گے اپوزیشن سیلیکٹرز کی بے فائی اور وعدہ خلافیوں سے خوب واقف تھی اس لیے ان کو کسی چکر یا گیم کا خوف تھا لیکن پی ٹی آئی حکومت کی عدم کارکردگی کے علاوہ سیلیکٹرز یہ بھی چاہتے تھے کہ اپوزیشن کے سامنے اپنی پوزیشن کو نیوٹرل بنانا ہے، اپوزیشن کے منہ سے جو آگ نکل رہی ہے اس کو بھی بند کرنا ہے۔ اس لیے سیلیکٹرز نے اپوزیشن کو پورا یقین دلایا کہ اس بار پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے پہلے نمبر پر پی ٹی آئی سے ان کے اتحادیوں کو فاصلے پر کھڑا کر دیا جبکہ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے اندر سے ایک بڑی تعداد کو پارٹی سے علٰیحدہ کردیا گیا۔ علٰیحدہ ہونے والوں کی بولیاں لگیں، سندھ ہائوس کی سیر کرائی گئی اور میریٹ ہوٹل میں خوب عیاشی کروائی گئی۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے راہ ہموار ہوگئی۔ اس دوران انٹرنیشنل سیلیکٹرز نے پاکستانی سفیر کے ذریعے اندرونی سیلیکٹرز کو مراسلہ ارسال کروایا کہ عدم اعتماد کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرو ورنہ پاکستان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ اس لیے اندورنی سیلیکٹرز نے حکومت گرانے میں جلد بازی سے کام لیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے جیالوں نے اسمبلی کے اندر آخر وقت تک بھر پور مزاحمت کی لیکن بالآخر سیلیکٹرز نے اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کو چاروں شانے چت کردیا۔ یہ پاکستان کی عدلیہ کا سیاہ باب ہے۔ اس کے نتیجہ میں عمران خان نے ۳۰ سالہ چوروں کو آڑے ہاتھوں لیا اور ایک ٹیگ اپوزیشن پارٹیوں کو دیا گیا کہ یہ انٹرنل اور انٹر نیشنل سیلیکٹرز کے سہارے حکومت میں آئے ہیں اس لیے یہ امپورٹڈ حکمران ہیں پی ڈی ایم پارٹیاں اس سے پہلے کئی بار حکومت کر چکی ہیں ان کی معاشی پالیسیوں سے قوم واقف ہے۔ ان کی کشمیر چائنا اور روس کی پالیسیوں سے بھی قوم واقف ہے۔ پاکستان میں ڈی اسلامائزیشن اور بھارت، امریکا اور اسرائیلی حکمرانوں سے ان کے تعلقات سے بھی قوم واقف ہے۔ پی ڈی ایم حکومت بننے کے ایک ماہ کے اندر مہنگائی ۲۰ فی صد اور بڑھ گئی۔ ڈالر ۱۹۵ روپے تک چلا گیا۔ آئی ایم ایف نے اس امپورٹڈ حکومت کو کہا کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کو مزید بڑھائو تا کہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط جاری کی جائے۔ آج پی ڈی ایم ایک بند گلی میں پھنس چکی ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم جال میں پھنس چکے ہیں اور اندر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کا گراف تیزی سے گر رہا ہے جبکہ پی ٹی آئی کو سیاسی شہید کر کے مری ہوئی پی ٹی آئی کو آسمانوں پر پہنچا دیا پوری قوم ایک جذباتی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے۔ کیونکہ قوم امریکا کی دھوکے بازی ۶۵ اور ۷۱ کی جنگ میں دیکھ چکی ہے۔ پوری قوم امریکا سے لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر اور مصحف علی میر اور امپورٹڈ حکمرانوں سے بدلہ لینے کے لیے عمران خان کے بیانیہ کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ایک نئی اصطلاح قوم کے سامنے رکھی کہ آج پاکستانی قوم کو نہ تو سیلیکٹڈ اور نہ ہی امپورٹڈ حکمرانوں کی ضرورت ہے بلکہ پاکستان کو، پاکستان کے نظریات کے ساتھ کمٹڈ حکمرانوں اور افرادِ کار کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی کی صورت میں موجود ہے جماعت اسلامی پاکستان وہ پارٹی ہے جو ملک کے نظریات، ملک کے دفاع اور اپنی قوم کے ساتھ انتہائی کمٹڈ افراد پر مشتمل ہے۔ قوم نے جب جب جہاں جہاں قومی امانتیں اس کے افراد کے حوالے کی ہیں انہوں نے قوم کے ساتھ بددیانتی اور بے وفائی نہیں کی بلکہ امانت اور دیانت کا ثبوت دیا ہے۔
اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے دو قومی نظریے، پاکستان کے اسلامی دستور اور پاکستان کے دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے کھڑی ہوجائے۔ کیونکہ یہی دستور ہے۔ جو پوری قوم میں وفاق کی علامت ہے جس نے مختلف قومیتوں کو جمع کر رکھا ہے۔ اسی طرح دستور میں حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ دستور پاکستان کی دفعہ 295C قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی دفعات کے تحفظ کے لیے کوشش کرے۔ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شریعت عدالت کے تحفظ کے لیے قوم کو کھڑا کرے۔ جماعت اسلامی امت مسلمہ یعنی کشمیر، فلسطین، شیشان، برما، الجزائز، مصر، حماس، ترکی اور بنگلا دیش میں اسلامی تحریکات کے تحفظ کا بیانیہ پوری قوم کے سامنے رکھے۔ الحمدللہ اس وقت پوری قوم جماعت اسلامی کو امانت و دیانت، محب وطن، محب اسلام اور خدمت خلق پر یقین رکھنے والی جماعت کی حیثیت سے جانتی اور مانتی ہے۔ جماعت اسلامی ان باتوں کو اپنا بیانیہ بنائے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بڑے عرصہ بعد یہ پالیسی بنائی کہ جماعت آئندہ الیکشن اپنے نشان اور جھنڈے پر الیکشن لڑے گی اپنی دعوت اور نظریات کو عام کرے گی۔ جماعت اسلامی پاکستان نے یہ ہدف طے کیا ہے کہ تمام سیٹوں پر الیکشن لڑ کر اپنے ووٹ بینک کو پچاس لاکھ تک لے جانا ہے اور ابھی حالیہ بلدیاتی اور کینٹ کے الیکشن میں اللہ نے کامیابی بھی دی اور جماعت کے ووٹ بینک میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ ہر منظر کا ایک پس منظر ہوتا ہے اس وقت ظاہری منظر تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ اب باہم دست و گریباں ہیں لیکن پس منظر میںکیا عمران خان سے کچھ کام کروانے مطلوب تو نہیں؟ یعنی پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام تو نہیں آرہا؟ پاکستان کے اسلامی دستور کی جگہ سیکولر دستور تو نہیں آرہا؟ اگر ملک میں دستور ہی نہ رہا تو حاکمیت اعلیٰ اور اسلامی دفعات کہاں سے رہیں گی؟ پاکستان کے اسلامی معاشرے کو سیکولر معاشرے میں بدلنے کی شعوری کوشش تو نہیں ہو رہی؟ پاکستان میں اسلامی خاندانی نظام کو توڑ کر مخلوط معاشرے کی تشکیل کسی کو مطلوب تو نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر پاکستانی قوم کو فوج سے لڑانا کسی کو مطلوب تو نہیں؟ اگر فوج نہ بچی تو آ پ کے ایٹمی اثاثے کیسے بچیں گے؟ ان سوالات کے جوابات آپ خود تلاش کیجیے۔