خوبصورت دنیا،بہترین آخرت

611

روزآنہ دفتر جاتے ہوئے راستے میں بہت سارے نجی اسکول پڑتے ہیں ایک اسکول کے گیٹ پر یہ جملہ ’’خوبصورت دنیا، بہترین آخرت‘‘ لکھا دیکھا تو مجھے اس لحاظ سے بہت اچھا لگا کہ جیسے ایک کوزے میں سمندر کو بھر دیا گیا، اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں کہ ہم بچوں کی دنیا ہی خوبصورت نہیں بناتے بلکہ آخرت بھی اچھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا یہ کہ بچوں کی دنیا اور آخرت دونوں اچھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچوں کی دنیا کو اس انداز سے سنوارا جائے کہ آخرت بھی از خود سنورتی رہے۔ ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اس نہج پر کی جائے کہ اسے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی نصیب ہو جائے، آخرت کی کامیابی اور خوبصورتی کیا ہے ہمارے پیارے نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ آخرت میں وہی کامیاب ہے جو دوزخ کی آگ سے بچالیا گیا۔ وہ مشہور دعا جو ہم ہر نماز میں مانگتے ہیں کہ: ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ کہ اے ہمارے رب تو ہماری دنیا بھی اچھی بنا اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا اور دوزخ کی آگ سے بچا لے۔ یہ چار الفاظ اس دعا کی تشریح یا اس دعا کا نچوڑ ہیں۔ جس طرح دین کو چھوڑ دینا مستحسن نہیں ہے اسی طرح دنیا کو چھوڑ دینا بھی مستحسن نہیں ہے۔
آج ہی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ آئی ہے کہ ’’اولاد کے لیے بہتر دنیا چھوڑنے سے بہتر ہے کہ بہتر اولاد دنیا کے لیے چھوڑ جائو‘‘ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ ایک انسان جب مرجاتا ہے تو اس کے عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے لیکن تین چیزیں ایسی ہیں جس کا اجر قیامت تک مرنے والے کو پہنچتا رہتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کے پاس جو علم تھا وہ اس نے دوسروں تک پہنچایا جسے پہنچا اس نے مزید آگے تک پہنچایا یہ سلسلہ جتنا چلتا رہے گا اس کے نامہ اعمال میں اس کا اجر جمع ہوتا رہے گا۔ دوسرے یہ کہ اس نے اپنا مال کو کسی ایسے خیر کے کاموں میں خرچ کیا جس سے عام لوگوں کا بھلا ہوا ہو مسلمانوں کے لیے کنواں کھدوایا ہو، کسی یتیم کے تعلیمی اخراجات پورے کیے ہوں، مدرسوں کی مدد کی ہو، کوئی ایسا اسپتال بنایا ہو جو غریبوں کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرتا ہو اسی طرح تیسری چیز اس کی نیک اولاد ہے جس کی مرنے والے نے رزق حلال سے پرورش کی اور اسلامی نہج پر اس کی تربیت کی وہ اولاد دنیا جب تک نیکی اور بھلائی کے فروغ میں لگی رہے گی اس کا ثواب اس کے والدین کو جاتا رہے گا۔
خوبصورت دنیا اور بہترین آخرت کے لیے پہلی تربیت گاہ تو ماں کی گود ہوتی ہے اس کے بعد والدین کی طرف سے ایسا پاکیزہ ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے جس سے بچوں کی ذہنی تربیت
اسلامی نہج پر ہو اس لیے اس کی پہلی ذمے داری تو ماں باپ کی اس کے بعد پھر تعلیمی اداروں کا نمبر آتا ہے۔ آج کل بچے بچے کے ہاتھ میں ہم موبائل پکڑا دیتے ہیں جو ماں باپ اس مصیبت کا آگے چل کر نقصانات کا احساس رکھتے ہوں وہ ضرور اس پر خصوصی توجہ دیں گے۔ ہمیں موبائل کے خوفناک نقصانات سے اپنی آنے والی نسلوں کو بچانا ہے۔ بہت سارے اسکولوں میں بچوں سے موبائل لے کر رکھ لیا جاتا ہے اور چھٹی کے وقت انہیں واپس دے دیا جاتا ہے، اس لیے کہ کچھ بچے والدین کی چوری سے موبائل فون لے آتے ہیں۔ یہ یاد رکھیے کہ موبائل فون کے نقصانات سے بچانا والدین کی اولین ذمے داری ہے۔ آپ اپنے بچوں کا ایسا سخت شیڈول بنائیں کہ انہیں زیادہ فالتو وقت نہ مل سکے اسی طرح آپ انہیں موبائل دیں تو یہ دیکھیں کہ وہ کون سے گیم کھیل رہے ہیں کون سے پروگرام دیکھ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کو سرکاری سطح پر سوشل میڈیا پر بچوں کے ایسے دلچسپ پروگرام دینے چاہییں کہ بچے ادھر ادھر کی کوئی اور ایپ نہ تلاش کرتے پھریں۔
ایک وقت تھا جب پی ٹی وی اپنے ڈراموں اور مختلف پروگراموں کے حوالے سے بھارت سے کہیں زیادہ آگے تھا بھارت کے شہری پاکستانی ڈراموں اور مزاحیہ پروگراموں کے عاشق تھے تو کیا وجہ ہے کہ آج بھارتی بچوں کا پروگرام موٹو پتلو ہمارے بچوں کو بہت پسند ہے ہمارے ادیبوں، افسانہ نگاروں اور دانشوروں کو اپنے یوٹیوب چینل پر بچوں کے ایسے پروگرام پیش کرنے چاہییں جو دلچسپ بھی ہوں اور بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت بھی ہوتی رہے ہمارے سوشل میڈیا میں سیاسی پروگراموں اور ٹاک شوز کے مختلف یوٹیوب چینل بنے ہوئے ہیں جو مختلف صحافی چلاتے ہیں اسی طرح بچوں اور بڑوں کے لیے بھی ہمارے زہین افراد مختلف یوٹیوب چینل بنا سکتے ہیں، جو اجر وثواب کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ ایک زمانے میں صرف ایک پی ٹی وی تھا جو روزآنہ شام کو بچوں کے پروگرام کلیاں، عینک والا جن اور دیگر دلچسپ پروگرام پیش کرتا تھا جسے بچے بڑے شوق سے دیکھتے تھے اب ہمارے پاس چینلوں کی بھرمار ہوگئی ہے لیکن کسی چینل کے پاس بچوں کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے، کہتے ہیں کہ یہ کمپیوٹر ایج کے بچے ہیں جو پہلے جیسے بچے نہیں ہیں یہ انتہائی ذہین اور سمجھدار بچے ہیں میں سمجھتا ہوں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ایسا دردمند سرمایہ دار پاکستانی میدان میں آئے جو محض اللہ کی رضا کی خاطر اپنی آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچانے کی خاطر بچوں کا ایک ٹی وی چینل الگ سے کھولے اور اس میں بچوں کی دلچسپی کے پروگرام پیش کیے جائیں، حکومت پاکستان کو بھی اس طرف خصوصی توجہ دینا چاہیے آنے والی نسلوں کی اسلامی نہج پر تربیت والدین اور اسکولوں کے علاوہ حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔
اسی موضوع سے جڑی ہوئی ایک اور بات کہ میں نے الطاف حسین قریشی کے کالم میں پڑھا کہ جنرل حمید گل ہمارے مایہ ناز جنرل تھے انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے نسیم حجازی کا ایک اسلامی تاریخی ناول پڑھا تھا جس سے متاثر ہو کر انہوں نے فوج میں شامل ہونا پسند کیا اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے بھی نسیم حجازی کا ناول پڑھ کر یہ اثر لیا کہ انہیں امت مسلمہ کے لیے کچھ کرنا چاہیے پھر انہوں نے اسلامی ملک پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنا دیا اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح ترکی کے ارطغرل ڈرامے نے قبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اسی طرح اگر ہم نسیم حجازی کے ناولوں کو ڈرامائی شکل میں نوجوان نسلوں کے سامنے پیش کریں تو اس سے نوجوانوں کی ذہنی تربیت اچھے انداز میں ہو سکتی ہے۔