اپنا اپنا کریڈٹ

323

وزیر خارجہ بلاول زرداری امریکا کا دورہ کرچکے ہیں۔ یہ ان کا وزیر خارجہ کی حیثیت سے امریکا کا پہلا دورہ ہے۔ جس کا مقصد امریکا میں ہونے والی فوڈ سیکورٹی کانفرنس میں شرکت تھی۔ اس سے ہٹ کر انہوں نے امریکی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں جن میں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن شامل ہیں۔ انٹونی بلنکن کے ساتھ ان کا ایک فوٹو سیشن بھی ہوا۔ اس سے پہلے بلاول زرداری پورے اعتماد کے ساتھ یہ موقف دہرا چکے تھے کہ عمران خان کے خلاف سازش وائٹ ہائوس نے نہیں بلکہ بلاول ہائوس نے کی تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ ملک میں ہونے والی حالیہ تبدیلی کا سارا کریڈٹ خود لے رہے تھے اور اس سار ے عمل کی ذمے داری اپنے سر لے رہے تھے۔ اس سے پہلے مریم نواز یہ سار کریڈٹ لندن کے ایون فیلڈ میں مقیم میاں نوازشریف کو دیتے ہوئے کہہ چکی تھیں کہ لندن میں بیٹھے شخص نے انہیں گھس کر مارا۔ بلاول سے پہلے سابق صدر آصف زرداری بھی کہہ چکے تھے کہ اگر امریکا میں کوئی سازش ہوئی ہوتی تو بائیڈن میرا دوست ہے وہ مجھے ضرور ٹیلی فون کرتا۔ آصف زرداری کی بائیڈن سے قربت کو دوستی کہنا جملہ معترضہ ہو سکتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ جب آصف زرداری صدر پاکستان تھے تو جوبائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے اور اسی وقت ان کے دورہ ٔ پاکستان کے موقع پر انہیں جوبائیڈن کو نشان پاکستان پہنایا گیا تھا۔ انہیں اس اعزاز کا مستحق جمہوریت کی عظیم خدمات کے بدلے سمجھا گیا تھا۔ اسی لیے جوبائیڈن کے امریکا کا صدر منتخب ہوتے ہی ملک میں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف سخت گیری کے ماحول کے اندر ہی راستے بنتے چلے گئے۔
بلاول کا دورہ ٔ امریکا اب پاکستان کی امریکا پالیسی کو دوبارہ اپنی پرانی راہ پر لانے کی جانب اہم قدم ہوگا۔ پاکستان امریکا کے ساتھ دوبارہ پرانے عہد وپیماں کی تجدید اور تعلقات کی دیوار میں آنے والی دراڑیں بھرنے کی کوشش کر ے گا۔ بلاول کی طرف سے پاکستان کی سیاسی تبدیلی کا سارا کریڈٹ زرداری ہائوس کو دینا اپنی ہمت وسکت سے زیادہ بوجھ اُٹھانے والا معاملہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس سیاسی تبدیلی میں بلاول ہائوس، ایون فیلڈ لندن، مولانا فضل الرحمن حتیٰ کہ عامر لیاقت کا بھی کردار ہے مگر اس فتح کا تاج کسی ایک سر اور اس کا تمغہ کسی ایک کندھے پر سجایا نہیں جا سکتا۔ بڑی سیاسی شخصیات اور جماعتوں کا کردار تو مسلمہ ہے اور عامر لیاقت کے حکومت کا ساتھ چھوڑنے سے بھی وہ مطلوبہ ماحول بننے میں مدملی جس سے اتحادیوں کے لیے اپنی راہ کا تعین آسان ہوگیا۔ بلاول کا لانگ مارچ اور اس مارچ میں عمران خان کو بار بار استعفا دینے کا الٹی میٹم ہو یا مسلم لیک ن کا اپنی مقبولیت کو دائو پر لگا کر تبدیلی حکومت کی اسکیم کا حصہ بننا سب بڑے مشکل فیصلے تھے۔ اس ساری سیاست نے تبدیلی کے عمل کو آسان بنایا۔
یہ تقریباً نوے کی دہائی کی ریہرسل ہی تھی جس میں ایک سیاسی جماعت مخالف حکومت کے خلاف لانگ مارچ، دھرنا یا تحریک نجات چلا کر حکومت کا دھڑن تختہ کرنے اور چاہنے والوں کا کام آسان بنایا کرتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں نے عمران حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے ماحول اور مناظر کو آسان اور اس منزل کو قریب کیا۔ اس طرح مل جل کر حکومت سے گلو خلاصی حاصل کی گئی ہے۔ اس تبدیلی کا اصل کریڈٹ جس کا ہے وہ اس میں شراکت داری کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ یہ عمل ان کی تیزی سے خراب ہوتی ہوئی عالمی دھاک اور ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے میں ایک کلید کی حیثیت کا حامل تھا۔ پاکستان جس رخ جا رہا تھا وہ امریکا کو قبول نہیں تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پچھتر سالہ مروج اور منجمد اصولوں کو تبدیل کرنے کا ایک عمل تھا جس کی اندر اور باہر سے مزاحمت ہو رہی تھی۔ آخر کار ایک مقام ایسا آیا جب مہرہ تبدیل کرنا ہی مسئلے کا حل ٹھیرا۔ اب پاکستان جو منظر پیش کر رہا ہے اس میں چند ماہ قبل امریکا کی جمہوریت کانفرنس سے الگ رہنے والا پاکستان اب دوڑ دوڑ کر فوڈ سیکورٹی کانفرنس میں شریک ہو رہا ہے۔ بہت سی چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔ یوں پاکستان کی امریکا پالیسی کو عمران خان کے ہاتھوں لگنے والے زخم اب مندمل ہونے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ وزارت خارجہ کا لب ولہجہ بدلنے لگا ہے۔ اس کی فائلوں میں پرانے نوٹس پر فلیوڈ لگے گا اور پرانے پیراگراف کا تسلسل جاری رہے گا۔ امریکا نے روس اور چین کو فاتحانہ پیغام دے دیا ہوگا کہ وہ پرانے اتحادی کو ان کے پہلو سے اُٹھا کر واپس لا یا ہے۔ اس کام میں جوبائیڈن سے عامر لیاقت تک سب کا اپنا اپنا حصہ ہے اور اس کے درمیان والوں کی سیاسی جدوجہد اور محنت کا دخل بھی کچھ کم نہیں مگر کریڈٹ کی درجہ بندی میں احتیاط لازم ہے۔ ہر ایک کو کسی دوسرے کے کریڈٹ کی لکیر عبور کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ عالمی ڈپلومیسی میں اس بات کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔