سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم نہیں ہوئی

223

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت تاحال ختم نہیں ہوئی‘ اس کا سلسلہ مسلسل جاری ہے‘ فوج کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے‘ سیاسی گُھتیاں سلجھانا نہیں‘ سیاستدان باہمی سر پھٹول میں مصروف ہیں‘ شہباز شریف کو کچھ سمجھ نہیں آرہا‘ عمران خان ہیرو بن گئے‘ مشکل فیصلوں اور اقتدار میں رہنے کے لیے اتحادی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے مہلت اور ضمانت مانگ رہی ہیں۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ، ممتاز سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس اور ممتاز کالم نگار، دانشور اور ٹی وی میزبان سجاد میر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’ کیا سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم ہو گئی ہے؟‘‘جاوید قصوری نے کہا کہ دستوری اور آئینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی امور میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں تاہم عملی طور پر ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ غیر آئینی مداخلت ختم ہو گئی ہے جب تک ملک کا سیاسی نظام مستحکم اور آئین کے مطابق نہیں ہوگا اور تمام تر سیاسی امور سیاسی
جماعتیں خود طے نہیں کریں گی ‘ اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کی سیاست مداخلت جاری رہے گی ‘ اس مداخلت نے پاکستان کے سیاسی نظام کو سخت نقصان پہنچایا ہے جس کے باعث سیاسی جماعتیں خود سے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں‘ ہماری رائے میں اسٹیبلشمنٹ یا فوج کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا اور دفاع کو مضبوط بنانا ہے‘سیاسی مسائل کو سلجھانا اور سیاست کی خرابیوں کو دور کرنا سیاستدانوںکا کام ہے۔ سجاد میر نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کا خاتمہ محض ایک خواب ہے جو ہمیں دکھایا جا رہا ہے اور ہمیں اچھا بھی لگ رہا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ فیصلہ ساز قوت ہے جو ہر ملک کی ضرورت ہوتی ہے مگر جب یہ اپنی حدود سے تجاویز کر جائے تو صورتحال خطرناک ہو جاتی ہے اور اسی صورت حال کا آج کل پاکستان کو سامنا ہے اور افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ حالات کے شدید بگاڑ کے باوجود اس مداخلت کے خاتمہ کا کوئی امکان ابھی دکھائی نہیں دیتا بلکہ حالات جوں جوں خراب ہو جاتے ہیں یہ مداخلت بڑھتی چلی جاتی ہے اور جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوتے ہیں وہ بھی اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں یوں سیاست دانو ں کی کمزوری اسٹیبلشمنٹ کی مضبوطی بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے‘ اب تو حکومتی اتحاد والے خود کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اقتدار میں رہنے کی مہلت اور ضمانت دی جائے تاکہ ہم مشکل فیصلے کر سکیں‘ عمران خاں بھی اسی طرح کی باتیں کر رہے ہیں‘ در اصل مفاد پرستی، کرپشن اور موروثی سیاست ہمارے نظام کی جڑوں میں بیٹھ چکی ہیں اس کے باعث عمران خان کو ابھرنے کا موقع ملا مگر حالات ایسے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر بات کرنے پر تیار نہیں۔ قبل ازیں جب مرحوم بھٹو اقتدار میں تھے تو انہوں نے مخالف سیاسی جماعتوں کا برا حشر کیا جس پر پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیا پھر انتخابات کے بعد کئی ماہ مذاکرات ہوتے رہے مگر کوئی نتیجہ اس لیے نہیں نکل سکا کہ کوئی جماعت سنجیدہ نہیں تھی اور پھر نتیجہ فوجی حکومت کی صورت سامنے آیا‘ 1988ء کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا دوسرا دور شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے‘ اس وقت سیاسی حالات جس نہج پر جا رہے ہیں، سیاسی جماعتیں جس طرح باہمی سر پھٹول میں مصروف اور ایک دوسرے کے خلاف جو غیر شائستہ زبان استعمال کر رہی ہیں اس پر ہر پاکستانی رنجیدہ ہے۔ اسد منظور بٹ نے بتایا کہ مداخلت ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور تمام کام اسی مداخلت کے ذریعے تکمیل پا رہے ہیں‘ یہ مداخلت ہی تھی جس نے قومی اسمبلی میں 155 نشستوں والے عمران خان کو اقتدار سے محروم کر کے 84 نشستوں والے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوا دیا۔ اب وہی شہباز شریف خود کو اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی ایک جال میں پھنسا ہوا محسوس کر رہے ہیں‘ وہ حزب اختلاف میں رہتے تو آئندہ انتخابات تک عمران خان بری طرح غیر مقبول ہو چکے ہوتے مگر اب اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بننے والی حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی اور عمران خان ہیرو بن چکے ہیں‘ دوسری جانب حمزہ شہباز بھی پنجاب میں ایسے مسائل سے دو چار ہیں جن کا کوئی حل انہیں نہیں سوجھ رہا‘ یہ سب کھیل اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور اشاروں ہی پر کھیلا جا رہا ہے۔