شریف فیملی کی بھارت نوازی

734

شریف فیملی گزشتہ پینتیس چالیس سال سے پاکستان پر حکمرانی کررہی ہے۔ اس فیملی کے بانی میاں محمد شریف امرتسر کے ایک گائوں جاتی امرا کے رہنے والے تھے اور لوہار کا کام کرتے تھے۔ آدمی محنتی اور زیرک تھے۔ پاکستان آکر انہوں نے بہت محنت کی اور ایک چھوٹی سی بھٹی سے ترقی کرکے ایک بڑی اسٹیل ملز اور فائونڈری لگانے میں کامیاب رہے۔ وہ اپنے خاندان میں بڑے تھے اس لیے اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کاروبار میں اپنے بھائیوں کو بھی شریک رکھا اور اِسے اتفاق کا نام دیا۔ اتفاق فائونڈری، اتفاق اسٹیل ملز، اتفاق شوگر مل۔ غرضیکہ ’’اتفاق‘‘ ان کے کاروبار کا ٹائٹل بن گیا اور ہُن بارش کی طرح برسنے لگا۔ میاں محمد شریف نے اپنے کاروبار کو سابق مشرقی پاکستان تک وسعت دی اور وہاں بھی کارخانے لگائے۔ تاہم امرتسر کے جاتی امرا کی یاد ان کے دل سے نہ نکل سکی۔ جب پیسہ آیا تو انہوں نے لاہور میں بھی اپنی فیملی کے لیے جاتی امرا کے نام سے ایک جدید بستی بسانے کا منصوبہ بنایا، اس مقصد کے لیے رائیونڈ میں زمین حاصل کی گئی جسے بعد میں وسیع سے وسیع تر کیا جاتا رہا۔ میاں محمد شریف نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ لاہور کے جاتی امرا کی تعمیر کے لیے امرتسر کے جاتی امرا سے مزدوروں اور کاریگروں کی ایک ٹیم لایا کرتے تھے۔ اس طرح یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ لاہور کے جاتی امرا کی تعمیر میں امرتسر کے جاتی امرا کے لوگوں کا (خون) پسینہ بھی شامل ہے۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انہیں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ملک کی تمام صنعتوں کو قومیانے کی دُھن سوار ہوگئی۔ اتفاق کے کارخانے بھی اس عمل کی زد میں آگئے۔ دولت تو خیر میاں محمد شریف نے بہت کمالی تھی لیکن جب دولت پیدا کرنے والے کارخانے قومی تحویل میں چلے گئے تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ آدمی باہمت اور دور اندیش تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر وہ سیاست میں ہوتے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کا تعلق ہوتا تو ان پر کبھی یہ حادثہ پیش نہ آتا۔ چناں چہ انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ خود پس منظر میں رہ کر اپنے بیٹوں میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو کامیاب سیاستدان بنانا چاہتے تھے۔ ان کا ایک اور بیٹا میاں عباس شریف درویش صفت تھا، اس نے سیاست کے تالاب میں چھلانگ لگانے سے انکار کردیا اور اپنے کاروبار میں مگن رہا۔ اول الذکر دونوں بیٹے سیاست کے تالاب میں اُترے تو انہیں تیراکی کا فن خود میاں محمد شریف نے سکھایا۔ جب تک وہ زندہ رہے اپنے بیٹوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ اسے شریف فیملی کی خوش قسمتی کہیے کہ بھٹو کا ستارہ جلد غروب ہوگیا اور اس کی جگہ جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت آگئی۔ بس پھر کیا تھا پھر شریف فیملی کی لاٹری نکل آئی۔ جنرل ضیا الحق نے شریفوں کے کارخانے انہیں واپس کردیے۔ میاں محمد شریف نے صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرنیلوں کو جاتی امرا مدعو کیا۔ ان کی خاطر مدارت کی اور اپنے دونوں بیٹوں کو ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ جنرل ضیا الحق کو میاں نواز شریف بہت پسند آئے۔ انہیں پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا پھر کچھ عرصہ بعد صوبہ کا وزیراعلیٰ مقرر کردیا۔ پھر چل سو چل۔ وہ دن اور آج کا دن، شریفوں کی حکمرانی میں نشیب و فراز تو آئے، سلسلہ نہیں ٹوٹا۔ بڑا بھائی مرکز میں وزیراعظم بنا تو چھوٹے نے پنجاب کی گدی سنبھال لی۔ اس دوران جاتی امرا بھی خوب پھولا پھلا۔ لوگوں سے اونے پونے اور دھونس سے زمین خرید کر کے اسے خوب توسیع دی گئی۔ دونوں بھائیوں نے اسے اپنا کیمپ آفس قرار دے کر اس پر قومی خزانے کا منہ کھول دیا۔ سرکاری خرچ پر اس کے اردگرد چار دیواری تعمیر کی گئی اور اس کی حفاظت و نگرانی کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔
میاں محمد شریف تو خیر امرتسر کے جاتی امرا کی محبت کے اسیر تھے ہی اور اسی محبت کو زندہ رکھنے کے لیے انہوں نے لاہور میں جاتی امرا بسایا تھا۔ پاکستان سے ان کی محبت شک و شبہ سے بالاتر تھی انہیں سب کچھ پاکستان ہی نے دیا تھا۔ امرتسر کے جاتی امرا میں رہے تو ایک معمولی لوہار سے آگے نہ بڑھ پائے البتہ ہمیں حیرت ان کے بیٹوں پر ہے، پاکستان میں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے اور قدرت کی مہربانی سے ملک کی حکمرانی پر مسلط ہوئے لیکن بھارت نوازی میں پاگل ہوئے جارہے ہیں۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے، وہ بھی پاکستان کی طرح برصغیر ہند کا حصہ تھا، پاکستان کے ساتھ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ اس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا پاکستان کی پالیسی کا حصہ ہے لیکن اگر وہ دشمن کا روپ دھار لے، پاکستان کی سلامتی کے درپے ہوجائے، 1971ء میں وہ پاکستان کو دوٹکڑے کرچکا ہو اور باقی ماندہ پاکستان کو بھی ٹکڑے ٹکرے کرنا چاہتا ہو۔ جس نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہو اور یہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل رہا ہو، جس نے پاکستان کے دریائوں کا پانی روک رکھا ہو اور سرسبز و شاداب پاکستان کو صحرا میں بدلنا چاہتا ہو۔ تو ایسے دشمن سے نہ دوستی کی جاسکتی ہے نہ محبت کی پینگیں بڑھائی جاسکتی ہیں بلکہ اس کی دشمنی سے بچائو کی تدبیریں اختیار کرنا اور اس کے ہر وار کو ناکام بنانا ہی حب الوطنی کا تقاضا قرار پاتا ہے۔ شریف برادران کی بھارت نوازی اور بھارت سے محبت کی پینگیں کچھ اور ہی کہانی سناتی ہیں۔ میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور تینوں مرتبہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش میں تمام حدیں پھلانگ گئے۔ بھارت کی انتہا پسند قیادت پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کرتی، وہ دونوں ملکوں کے درمیان زمین پر کھینچی گئی لکیر کو مٹانا چاہتی ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میاں صاحب بھی اس لکیر کو بے معنی قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس لکیر کے دونوں طرف کے لوگ ایک ہی زبان بولتے، ایک جیسا کھانا کھاتے، ایک جیسا لباس پہنتے، حتیٰ کہ لڑائی جھگڑے میں گالی بھی ایک جیسی دیتے ہیں پھر ان کے درمیان دوری کیوں؟۔ میاں صاحب نے دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے اور قومی اسمبلی میں تین چوتھائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی عوام نے انہیں بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے، حالاں کہ یہ دعویٰ بالکل جھوٹ تھا اگر وہ انتخابات کے دوران بھارت سے دوستی کا راگ الاپتے تو اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنا بھی ان کے لیے دشوار ہوجاتا۔ میاں صاحب تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو اس وقت بھی ان پر بھارت سے دوستی کا بھوت سوار تھا، پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر وہ نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں نئی دہلی جاپہنچے اور کشمیری لیڈروں کو نظر انداز کرکے اپنے کاروباری دوستوں سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ پھر انہوں نے بھارتی صوبہ گجرات میں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی سے ذاتی دوستی گانٹھ لی، اسے اپنی نواسی کی شادی کے موقع پر جاتی امرا بلایا، تحائف وصول کیے اور اپنی والدہ سے ملاقات کرائی، مودی نے ماں جی کے پائوں چھوٹے اور دعائیں لیں۔ مسئلہ کشمیر اُس وقت بھی سلگ رہا تھا اور کشمیریوں پر بھارت کے مظالم جاری تھے لیکن میاں نواز شریف کی بھارت سے دوستی متاثر نہ ہوئی۔
اب چھوٹے میاں (شہباز شریف) کی وزیراعظم بننے کی حسرت پوری ہوئی ہے تو انہوں سب سے پہلے بھارت کے ساتھ تجارت پر پابندی ختم کردی ہے۔ یہ پابندی عمران حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے اندر ضم کرنے کے خلاف ردعمل میں لگائی تھی۔ کشمیریوں نے شہباز حکومت نے اس اقوام کو اہل کشمیر کے زخموں پر نمک چھڑنے کے مترادف قرار دیا ہے لیکن کشمیریوں کی سنتا کون ہے؟