’’قبلۂ اول خوں رنگ ہے‘‘

353

اپنی ناجائز پیدائش کے فوراً بعد ہی سے اسرائیلی ریاست ہٹ دھرمی اور بے شرمی کے ساتھ بین الاقوامی انسانی حقوق کی پامالی اور سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتی چلی آئی ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ایک بار پھر اسرائیلی صہیونی افواج کی جارحیت کا کبھی نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ جو شروع ہوا تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ متعدد چھاپا مار حملوں فائرنگ اور غیر قانونی گرفتاریوں کے ذریعے فلسطینی عوام کو ماہ رمضان کے دوران شدید کرب اور خوف میں مبتلا کر رکھا جس کے باعث وہ اپنی عبادات سکون سے ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ رمضان میں جمعہ کی صبح یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوج نے دھاوا بول دیا۔ اسرائیلی درندوں نے بے رحمی سے نمازیوں پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسائیں۔ اس اچانک حملے میں 152 سے زائد بے قصور غیر مسلح فلسطینی زخمی اور 300 کو گرفتار کر لیا گیا۔ حالانکہ رمضان کے آخری دس دنوں میں یہودیوں کو مسجد کے اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ برس بھی اسی طرح رمضان المبارک میں نہتے فلسطینیوں پر مسجد الاقصیٰ میں دوران نماز حملہ کر کے انہیں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا۔ سنگدل اسرائیل اپنے توسیع ’’پسندانہ عزائم اور گریٹر اسرائیل‘‘ کے قیام کے اپنے دیرینہ خواب کو پورا کرنے کے لیے معصوم بے گناہ فلسطینی عورتوں بچوں اور نوجوانوں پر حملے اور چھاپا مار کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں نمازیوں پر یہ انتہائی قابل مذمت حملہ ہے۔ اور یہ انسانی اقدار اور انسانی حقوق کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ برس ہا برس سے اسرائیل نے حق دفاع کے نام پر بے گناہ فلسطینیوں کا بے دریغ قتل عام کرکے فلسطینی آبادی کو تہہ و بالا کرنے میں کوئی فروگزاشت نہیں چھوڑی۔ نوے لاکھ آبادی والے اسرائیل نے پچاس لاکھ فلسطینیوں کو چاروں جانب سے شکنجے میں کس کر ان کے تمام حقوق غصب کر رکھے ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ میں رہنے والے فلسطینی ایک قسم کی محصور زندگی گزار رہے ہیں۔ اسرائیل ان کے تمام زمینی، فضائی اور بحری راستے کنٹرول کر رہا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تناظر میں جبر اور استحصال کے ذریعے لاکھوں فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر ان کے گھروں سے نکالنا اور انہیں مختلف ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کرنا اصل میں انسانی حقوق کا سنگین جرم ہے۔
2021 میں انسانی حقوق کے معروف ادارے ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل فلسطین کے خلاف نسلی عصبیت پر مبنی بدترین قوانین اور پالیسیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے استعماری قوتوں کے ساتھ ساز باز کر کے فلسطین کو خود ساختہ تقسیم کرکے دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضے کے آغاز سے عرب اسرائیل جنگیں شروع ہوئیں۔ آہستہ آہستہ اسرائیل فلسطین کے زمینی حصے پر جنگوں کے ذریعے قبضہ کرتا چلا گیا۔ 1948 میں اسرائیل فلسطین کے اٹھتر فی صد علاقے پر جارحیت کے ذریعے قبضہ کر چکا تھا۔ ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو اردن شام اور لبنان میں نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
گزشتہ برس رمضان میں پھوٹ پڑنے والے فساد اور جھڑپوں کے بعد فلسطینی جہادی تنظیم ’’حماس‘‘ اور اسرائیل کی جنگ گیارہ روز تک جاری رہی۔ جس میں سیکڑوں بے گناہ شہری جان بحق ہو گئے اور اربوں روپے کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جعلی ریاست اسرائیل کے قیام سے تاحال عالمی سامراجی قوت امریکا اس کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ امداد کے نام پر کھربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کر کے صہیونی طاقت کو مضبوط کیا ہے۔ استعماری قوتیں ایک ایک کرکے تمام اسلامی ممالک کو چھوٹی بڑی جنگوں میں جھونک کر کمزور کرتی جا رہی ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دنیا اپنے تمام باہمی جھگڑے پس پشت ڈال کر فلسطین کے مسئلے کے حل کی جدوجہد کرے۔ اتفاق و مشاورت کے ذریعے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں اور متحدہ عملی اقدامات سے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ دنیا کے ہر امن پسند کا فرض ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ عالمی طے شدہ سرحدوں کا احترام کرے۔ اور اپنی فلسطین کی زمین پر مغربی پٹی کے کنارے پر اپنی غیر قانونی بستیوں کو مسمار کرے۔ مسئلہ فلسطین ایک سلگتا ہوا آتش فشاں ہے جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ یہ بات عالمی منصفوں کو معلوم ہونی چاہیے کہ اسرائیل فلسطین تنازع حل نہ ہوا تو یہ کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔