پاک چین دوستی ترقی کی ضمانت

489

اے ابن آدم آج ہمارے وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے وزیراعظم لی چیانگ کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ اس بات پر دونوں میں یہ اتفاق ہوا کہ پاک چین اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جب کہ دوطرفہ تعلقات کو مزید بلندیوں تک لے جانے کا عزم بھی کیا۔ ارے وزیراعظم آپ تو مہمان ہیں آپ پہلے قوم کی خستہ حالی کی طرف نظر ڈالیں چین تو ہمارا ابد سے لے کر ازل تک دوست رہے گا۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر وزیراعظم یا فوجی حکومت نے اپنے اپنے دور میں ہمیشہ چین سے تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا اس سے پہلے کے میں چین کی کہانی آپ کی نظر کروں میں چین کی ترقی اور اپنے ملک کے نااہل حکمرانوں کی وجہ سے ہونے والی بدحالی پر گفتگو کرکے آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ چین میں انصاف کا بول بالا ہے ان کے قانون میں کرپشن کی سزا موت ہے اور ہمارے قانون میں جتنا بڑا کرپٹ ہوگا وہ اتنا ہی بااثر ہوگا وہ ملک کا صدر، وزیراعظم، وزیر، مشیر بن جاتا ہے۔ موجودہ حکومت اس سب سے بڑی مثال ہے۔ سب کے خلاف کرپشن کے کیس چل رہے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ اربوں کے کرپشن کا الزام اور 50 لاکھ کی ضمانت پر آزاد اور بااختیار اب سندھ کے وزیرداخلہ ہی کو دیکھ لیں شرجیل انعام اربوں کی کرپشن کے الزام میں سرکاری مہمان تھے۔ اب وہ سوٹ اور ٹائی لگا کر دورے فرمارہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر 400 ارب کی کرپشن کا الزام اور وہ ایچ ای سی کے چیئرمین ہیں۔ نیب کے پاس ایک لمبی چوڑی کرپٹ سیاست دانوں، بیوروکریٹ کی فہرست موجود ہے۔ اب ہمارا ملک کس طرح سے ترقی کرسکتا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں۔

آئین میں سیاست دان یہ ترمیم نہیں کرتے کہ کرپشن کی سزا موت ہونی چاہیے۔ اگر یہ ترمیم آجاتی تو ہم بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں شامل ہوچکے ہوتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں برسوں سے موروثی سیاست چل رہی ہے۔ باری باری یہ ملک کو لوٹنے آتے ہیں، پھر لوٹ کا مال لندن یا سوئس بینک میں اُن کے اکائونٹ میں چلا جاتا ہے، اگر صرف یہ لوٹ کا مال ہی قوم کو واپس مل جائے تو ملک کے تمام قرضے اُتر سکتے ہیں۔ قوم خوشحال ہوسکتی ہے، یقین جانیں یہ کرپٹ حکمران آپ کو خوشحال کرنا ہی نہیں چاہتے، میں لکھ لکھ کر تھک گیا اپنی اسٹیبلشمنٹ سے بھی مطالبہ کیا کہ خدارا ایک موقع جماعت اسلامی کو بھی دے کر دیکھیں مگر بے سود، چین میں ایک قوم مضبوط قوم کا تصور ہے جب کہ ہماری قوم کو غیر ملکی آقائوں اور اُن کے پے رول پر کام کرنے والے سیاست دانوں نے 75 سال میں ایک ہونے نہیں دیا، پہلے قوم کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا پھر ایک دوسرے سے لڑوایا گیا اس پر جب بس نہیں چلا تو قوم کو فرقوں میں تقسیم کردیا۔ Divide and Rule کا یہ سلسلہ آج تک ہمارے ملک میں جاری ہے، ان سیاست دانوں کا تو آج کل بس یہ ایک کام ہے جلسے کرنا اور ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنا۔ قوم کی سیاسی اور سماجی تربیت تو کسی سیاست دان نے ہی کی نہیں۔ اب چلتے ہیں چین کی کہانی ابن آدم کی زبانی۔ اے ابن آدم آپ کو شاید یہ جان کو حیرت ہوگی پاکستان چین کی پہلی کھڑکی تھا چین کے لوگوں نے پاکستان کے ذریعے دنیا کو دیکھنا شروع کیا۔ پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائرلائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا، اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا، پاکستان نے ایوب خان کے دور میں چین کو 3 جہاز فروخت کیے، ان میں سے ایک جہاز ماوزے تنگ استعمال کرتے تھے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات کی درامد کی اجازت دی۔ پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی دی۔ چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستان انہیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا۔ پاکستان کا ویزہ کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتا لیکن آج وہ دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم واقعہ قرار دیتے ہیں۔ چین ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ جب کہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن کر رہ گئے۔ ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جامع تجزیہ نہیں کیا۔ ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جن کے باعث آج چین سپرپاور بن چکا ہے۔ چین نے چاند تک میڈ اِن چائنا کی مہر پہنچادی جن کے ذریعے چین نے ناصرف اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار، صحت، تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی بلکہ وہ دنیا بھر کے ساڑھے 6 ارب لوگوں کی ماں بھی بن گیا۔ ہم نے کبھی چیف کی ترقی کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگئی۔

پورے یورپ میں ایسے 39 شہر ہیں جن کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہے جب کہ چین نے پچھلے 30 سال میں 160 ایسے نئے شہر آباد کیے ہیں جن کی آبادی 10 لاکھ سے زائد ہے اور ان میں دنیا کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں۔ آج مرسڈیز کاروں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے۔ آج یورپ، امریکا پاکستان میں ایسی سبزیاں اور فروٹ ملتا ہے جس پر چائنا کا اسٹیکر لگا ہوتا ہے آج دنیا کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی نہ اپنے زوال کے شواہد اکٹھے کیے ہم نے کبھی نہیں سوچا کے چین کی ترقی کے چار اصول تھے مخلص اور ایماندار لیڈر شپ، ان تھک، محنت اپنی ذات پر انحصار اور خودداری، چین نے کبھی دوہری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا۔ اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا یہ قوم 15-15 گھنٹے کام کرتی ہیں جب اپنے کام سے فارغ ہوجاتی ہے تو دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتی ہے ان کی لیڈر شپ نے اپنا تن من اور دھن قوم پر وار دیا۔ ان کے لیڈر کا جنازہ تین مرلے کے مکان سے نکلا اور اس نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا ہم نے اور حکمرانوں نے کشکول کو اپنی معیشت بنا رکھا ہے۔ ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے لوگ ہیں۔ ساری لیڈر شپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں ان کی اولادیں اور گھر تک دوسرے ملکوں میں ہیں چین کا ایک مشہور فلسفہ ہے۔ وہ اپنی قوم کو مچھلی کھانے کی نہیں بلکہ مچھلی پکڑنے کی تربیت دیتے ہیں۔ کاش ہم آج جاگ جائیں ہم آج ان 46 ارب ڈالروں کو آخری امداد اور آخری سرمایہ کاری سمجھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کرلیں، اگر ہم نے چین کی ترقی کی تقلید کرلی تو 20 سال بعد دنیا ہمارے صدر کو وہ مقام دے گی، جو ہم نے آج شی چن پنگ کو دیا ہم اپنے نیچے والے ہاتھ کو اوپر والا ہاتھ بنالیں کاش ملک کو ایماندار قیادت جماعت اسلامی جیسی مل جائے پاکستان زندہ باد۔