کے الیکٹرک: کرپشن کے ملزمان کب گرفتار ہوں گے؟؟

445

کے ای ایس سی 2001ء سے قبل وفاقی وزارت پانی و بجلی کے زیر اہتمام ایک خود مختار ادارہ کی حیثیت سے کام کر رہا تھا اور اس کے جنریٹنگ یونٹس سے نہ صرف کراچی کے شہری و صنعتی علاقوں کی بجلی کی ضرورت پوری کی جا رہی تھی بلکہ حب اور اوتھل بلوچستان کے علاقوں کی بجلی کی ضرورت بھی پوری ہو رہی تھی کہ اچانک سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے کچھ عاقبت نااندیش دوستوں کی باتوں میں آکر کے ای ایس سی کی نجکاری کا فیصلہ کیا جن لوگوں نے یہ ’’مخلصانہ‘‘ مشورے دیے انہیں دراصل پاکستان سے شدید دشمنی تھی اور وہ لوگ چاہتے بھی یہی تھے کہ کے ای ایس سی، پی ٹی سی ایل اور اسٹیل مل جیسے منافع بخش ادارے اونے پونے فروخت کر دیے جائیں۔ کے ای ایس سی کی نجکاری میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنما شریک تھے۔
کے ای ایس سی کو دبئی کا ابراج گروپ چلانے میں ناکام ہوا پھر اس ادارے کو سیمنس انجینئرنگ کے حوالے کر دیا گیا اور سیمنس بغیر کوئی رقم ادا کیے اپنی کمپنی کا سامان فروخت کرتی رہی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تھی تو کراچی میں وزیر اعلیٰ ہائوس میں تمام کمرشل بینکوں سے کے ای ایس سی کی انتظامیہ کو تقریباً 24 ارب روپے کا قرضہ مہنگے سود پر دلوایا گیا۔ 2008-09ء میں ظفر عثمانی اور نوید اسماعیل کے ای ایس سی کی قیادت کر رہے تھے اور انہوں نے کے ای ایس سی کی تمام عمارتوں، زمینیں تمام آلات کمرشل بینکوں میں گروی رکھوا دیا جو آج تک ہے جب یہ قرضہ منظور ہوا تو سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ظفر عثمانی اور نوید اسماعیل جو کے ای ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن تھے کو حکم دیا کہ وہ اس پیسے کو قطعی استعمال نہیں کریں گے اور آصف علی زرداری کے حکم پر ان کی بہن میڈم فریال تالپور بورڈ آف گورنر میں شامل ہو گئیں اور میڈم فریال تالپور کو 80 فی صد شیئر کا مالک بنا دیا گیا جبکہ ظفر عثمانی اور نوید اسماعیل کو کے ای ایس سی سے برطرف کر دیا گیا۔ سابق ڈائریکٹر کے ای ایس سی تنظیم نقوی نے پریس کانفرنس کرکے کے ای ایس سی انتظامیہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ5 لاکھ کنڈوں سے غیر قانونی طور پر بھتا حاصل کر رہے ہیں اور کے ای ایس سی کے 24 ارب روپیہ کے قرضہ کا آج تک کوئی مصرف نظر نہیں آیا اور کے ای ایس سی پر 24 ارب روپے کے مہنگے قرضے کا سود چلتا آرہا ہے جو کے ای ایس سی کو مزید تباہ و برباد کر دے گا۔ کے ای ایس سی میں بعد ازاں تابش گوہر مہنگے داموں پر چیف آپریٹنگ آفیسر لگے اور رہی سہی کسر انہوں نے پوری کر دی۔ کے الیکٹرک کے اس وقت تمام جنریٹنگ یونٹس صحیح طرح سے کام نہیں کر رہے، صرف جام شورو کے تھرمل پاور اسٹیشن سے بجلی حاصل کرکے کراچی کے عوام کو سپلائی کر رہی ہے یا چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹوں سے کے الیکٹرک انتظامیہ نے بجلی کے تار بھی تبدیل کر دیے اور گھٹیا قسم کا تار بجلی کی ترسیلات میں استعمال ہو رہا ہے۔ عوام ہر وقت کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں۔ کے الیکٹرک ہر سال اپنے سالانہ آڈٹ میں 24 ارب روپے کا قرض مع سود دکھاتی ہے اور یہ سارا پیسہ عوام سے وصول کیا جا رہا ہے۔ کے الیکٹرک کی بدنصیبی ہے کہ ریٹائرڈ میجر اور کالم نویس اکرام سہگل کو بورڈ آف ڈائرکٹرز نے 18 جنوری 2019ء کو بحیثیت چیئرمین منتخب کیا۔ انہوں نے کے الیکٹرک کا بیڑہ غرق کر دیا۔ ان کو چیئرمین کے الیکٹرک بنوانے میں اسد عمر اور عمران اسماعیل کی سفارش شامل تھی۔ راقم الحروف نے اتوار 5 نومبر 2017ء بعنوان ’’کیا کے ای ایس سی میں 24 ارب روپے کا قرضہ کرپشن کی نذر ہو گیا؟‘‘ مع کے الیکٹرک کی بیلنس شیٹ جو 30 جون 2016ء کو جاری کی گئی تھی ان کے نام بذریعہ ٹی سی ایس بھیجا تھا۔ انہوں نے میرے کالم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وفاقی وزات خزانہ سے کے الیکٹرک کو 24 ارب روپے کی سبسڈی منظور کرائی جو غیر قانونی ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ہدایات پر ڈائرکٹر جنرل نیب راولپنڈی بذریعہ خط نمبر NAB(R)/2019/R/CVC/2019 Dated June 14, 2019 کو مذکورہ کالم سابق صدر آصف علی زرداری، میڈم فریال تالپور اور کے الیکٹرک کے افسران کے خلاف تحقیقات کے لیے منتخب کر لیا اور مجھے اطلاعاً خط بھیج دیا۔ 7 اگست 2019ء کو نیب کراچی کا خط بذریعہ ٹی سی ایس مجھے گھر کے پتے پر ملا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ 8 اگست 2019ء کو نیب کراچی کے دفتر نزد کینٹ اسٹیشن مع ثبوت کے حاضر ہو کر اپنا بیان حلفی ریکارڈ کروائوں۔
کے الیکٹرک کے سی ای اوعارف نقوی جو ابراج گروپ کے سربراہ ہیں اور سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، ڈاکٹر فاروق ستار، سابق وفاقی وزیر بابر خان غوری کی ہدایتوں پر ایم کیو ایم لندن کو منی لانڈرنگ کے ذریعے کروڑوں روپے بھجواتا رہا یہ الزام ان کے ادارے کے سابق سی ای او نوید اسماعیل، سابق ڈائرکٹر فنانس ظفر عثمانی، سابق ڈائرکٹر کے الیکٹرک تنظیم نقوی نے میڈیا میں لگائے تھے۔ یہ سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے خاص آدمیوں میں سے ہیں جنہوں نے ان کی دوستی جہانگیر ترین اور وزیر اعظم عمران خان سے کرائی تھی انہوں نے پی ٹی آئی کو بے دریغ مالی مدد الیکشن میں جیتنے کے لیے دی تھی ان کی ان مہربانیوں کا بدلہ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے پہلے ضمنی بجٹ 2019-20 میں 14 ارب روپے کی سبسڈی کے الیکٹرک کو دی تھی جبکہ دوسرے بجٹ 2019-20 میں عارف نقوی کی درخواست وزیر اعظم عمران خان نے 24 ارب روپے کی کے الیکٹرک کو سبسڈی دی ہے۔ (ٹوٹل 38 ارب روپے کی سبسڈی کے الیکٹرک کو دی گئی ہے)
عارف نقوی امریکا کی عدالتوں کی طرف سے اربوں ڈالرز کے فراڈ، دھوکے بازی اور منشیات کے بین الاقوامی اسمگلروں سے روابط ضوابط رکھنے کے الزام میں لندن میں قید ہیں۔ جب انہیں گرفتار کیا گیا تو برطانوی پولیس کے افسران نے ان سے دریافت کیا تھا کہ انہیں پاکستان میں کون جانتا ہے تو انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کا نام لیا اس وقت عمران خان کابینہ کی میٹنگ میں مصروف تھے انہوں نے عارف نقوی کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ انہیں گرفتار کرکے جیل عارضی طور پر بھیجا تھا کیونکہ امریکی حکومت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور برطانیہ سے انہیں امریکی حکام کے حوالے کرنا تھا جہاں انہیں 200 برس کی سزا کے ساتھ تمام منقولہ و غیر منقولہ جائداد ضبط کرنا تھا ان کی گرفتاری سے سابق وزیر اعظم عمران خان، صدر پاکستان عارف الرحمن علوی، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، سابق وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی، اسد عمر، سیّد علی حیدر زیدی سابق اور موجودہ سی ای اوز کے الیکٹرک تابش گوہر، نوید اسماعیل، اکرام سہگل، مونس الٰہی اور سابق ڈائریکٹر فنانس ظفر عثمانی (موجودہ چیئرمین پی ایس او) پریشان ہیں۔
جبکہ معتبر ذرائع نے نام نہ لینے پر انکشاف کیا ہے کہ تمام مندرجہ بالا حضرات اربوں، کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں۔
میری وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے اپیل ہے کہ وہ کے الیکٹرک میں کرپشن کے مبینہ الزام پر سابق وزیر اعظم عمران خان، اسد عمر، سیّد علی حیدر زیدی، عمران اسماعیل کو گرفتار کرکے جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کے حوالے کریں اہم معلومات کا پتا چلے گا اور معزز عدالتوں سے سخت سزائیں دلوائیں۔