شریعت عدالت کا تاریخی فیصلہ، حکمرانوں کی آزمائش

287

۔19 سال بعد رمضان المبارک کی 27 ویں لیلتہ القدر کو ملک کی وفاقی شریعت عدالت نے ایک مرتبہ پھر سود کے خلاف جرأت مندانہ و جذبہ ایمانی کے ساتھ تاریخی فیصلہ دیا ہے کہ انٹرسٹ سے متعلق تمام موجودہ قوانین و شقیں ’’ربا‘‘ ہیں اور انٹرسٹ ایکٹ 1839 سے متعلق تمام قوانین کے خلاف شریعت تصور ہوں گے۔ واضح ہو کہ یہ فیصلہ نواز شریف حکومت کے دور میں شریعت عدالت کے سابقہ فیصلہ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کے بعد عدالت عظمیٰ نے دوبارہ 2002ء میں وفاقی شریعت عدالت کو بھیجا تھا جس نے ایک مرتبہ پھر حکمرانوں کو موقع دیا ہے کہ وہ اللہ رسولؐ سے جنگ کے مترادف اس سودی نظام معیشت کی اسلام کے مطابق اصلاح کریں اور آخرت میں کامیابی کو اپنی منزل قرار دیں بصورت دیگر وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نظام کے خلاف بغاوت میں سہولت کار تصور کیے جائیں گے۔ بلاشبہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں جکڑے ہوئے موجودہ ظالمانہ سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت بڑی آزمائش و جرأت ایمانی کا تقاضا کرتا ہے لیکن پاکستان چوں کہ ایک خاص نظریہ اسلامی کے مطابق حاصل کیا گیا تھا اور آئین پاکستان بھی اسلامی نظریہ کی ضمانت دیتا ہے اس لیے حکمرانوں کا دینی و آئینی فریضہ ہے کہ وہ شریعت عدالت کے حالیہ فیصلہ کو من و عن نافذ کرنے کے لیے دی گئی مدت سے قبل ہی آغاز کریں۔
شریعت عدالت نے اپنا کردار ادا کردیا اب حکمرانوں، صاحب اختیار و دینی جماعتوںکا فرض ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں، اس سلسلے میں راقم الحروف کو گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کراچی کے تحت ایک اجلاس میں شرکت کا موقع ملا جس میں دینی جماعتوں کی موثر نمائندگی موجود تھی اور اس سلسلے کا ایک اہم اجلاس ملی یکجہتی کونسل کے تحت لاہور میں مرکزی سطح پر منعقد ہوا جہاں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی صدارت میں جید علما کرام و تمام مکاتب فکر کی نمائندگی موجود تھی۔ لاہور و کراچی میں ہونے والے ان اجلاسوں کے علاوہ افسوس کا مقام ہے کہ حالیہ شرعی و تاریخی فیصلے پر ہماری دینی جماعتوں و علما کرام کی جانب سے کوئی قابل ذکر اقدام نظر نہیں آیا۔ بہرحال جماعت اسلامی نے آگے بڑھ کر شریعت عدالت کے اس فیصلے پر علما کرام کو جمع کیا اور فیصلے کا بھرپور خیر مقدم کرتے ہوئے اس کے نفاذ و عمل درآمد کے لیے تجاویز مرتب کیں اور فیصلہ کیا کہ حکمرانوں کو اس پر عمل درآمد کے لیے دینی جماعتوں کی جانب سے بھرپور تعاون و تحریک چلائی جائے گی اور عوام الناس کو اس کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے مساجد و محراب و منبر سے آگاہی مہم کے لیے علما کرام سے اپیل کی جائے گی اور کئی مقامات پر کنونشن منعقد کیے جائیں گے تاکہ شریعت عدالت کا یہ فیصلہ عملی شکل اختیار کرکے اور ملک کو سودی و سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام معیشت سے نجات دلائی جاسکے۔ اس نظام میں جکڑی ہوئی دنیا آج سامراجی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک و دیگر قرضہ دینے والے عالمی اداروں کی جانب سے استحصال زدہ نظام میں غربت و اقتصادی تباہی کا شکار ہورہی ہے۔ خصوصاً ترقی پزیر کمزور اسلامی ممالک بھی اس نظام کا شکار ہیں، یہ نظام سرمایہ داری، جمہوریت و دیگر مغربی تصورات کی خوشنما شکل ہیں۔ اسلامی ممالک میں بھی معیشت کی تباہی کا ذمے دار ہے، پاکستان بھی آئی ایم ایف کے قرضوں اور ان کی سخت شرائط میں جکڑا ہوا ہے۔
شریعت عدالت کے فیصلے کے مطابق پاکستان کو سودی قرضوں سے متعلق پالیسی بنانی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جلد از جلد سودی قرضوں سے نجات حاصل ہوسکے، یہ عمل اگرچہ دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں۔ دراصل ہماری نیت و ارادہ اور عمل ثابت کرتا ہے کہ ہم اللہ رسولؐ کے قوانین کو تسلیم کرکے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر سابقہ حکومتوں کی طرح اس فیصلے کو بھی حیلے و بہانے کی نذر کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ قدرت نے ہمیں موقع فراہم کرنے کے لیے ایک ذریعہ دیا ہے کہ ہم اب بھی اللہ رسولؐ کے قوانین کی مخالفت سے باز آجائیں اور سود جیسی لعنت سے خود کو جلد از جلد آزاد کرالیں۔ جرأت و ہمت و جذبہ ایمانی سے فیصلہ کرلیں تو اللہ کی مدد و فضل ہمیں حاصل ہوگا اور پاکستان اپنے نظریہ کے مطابق صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے اور دنیا میں اسلامی نظام مملکت کی مثال پیش کرسکتا ہے جیسا کہ بانی پاکستان قائد اعظم نے اس کا تصور پیش کیا تھا اور اسٹیٹ بینک پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اس کا اعادہ کیا تھا کہ ہم ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس کے تمام قوانین اسلامی شریعت کے مطابق ہوں گے اور دستور پاکستان بھی واضح کرتا ہے کہ ریاست دفعہ ایف 38 کے تحت ’’ربا‘‘ (سود) کو جلد از جلد ختم کردے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو جرأت ایمانی دے کہ وہ شریعت عدالت کے اس عظیم شرعی و تاریخی فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور دنیا و آخرت میں سرخرو اور پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت بن سکے۔