آم کی پیداوار میں 30فیصد تک کمی کا خدشہ ہے

413

کراچی(کامرس رپورٹر)موسمیاتی تبدیلی، پانی کی شدید قلت، کھادوں کی عدم دستیابی ،موسم گرما کی جلد آمد اور آم پیدا کرنے والے بڑے اضلاع کے باغات شدید متاثرہونیسے ملک میں آم کی پیداوار میں 30 فیصد تک کمی کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔ ملتان، مظفر گڑھ، وہاڑی، خانیوال اور ملحقہ علاقوں میں آم پیدا کرنے والے بڑے علاقوں کے حکام اور کاشتکاروں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات، مہنگی مزدوری اور کھاد کی قلت نے باغات کے مالکان اور اس سے وابستہ لوگوں کے لیے شدید بحران پیدا کر دیا ہے،دوسری جانب جنوبی پنجاب ملک میں آم کاشت کرنے والا سب سے بڑا علاقہ تھا لیکن اس سال آم کی پیداوار کو شدید نقصان پہنچا ہے کیونکہ اس سال موسم بہار کا دورانیہ انتہائی کم ہے اور موسم گرما پہلے شروع ہوا۔ آم کے کاروبار کے ساتھ اس سال پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ آم کے کاشتکاروں اور محکمہ زراعت کے حکام کے مطابق پانی کی کمی کے علاوہ مارچ کے اوائل میں زیادہ درجہ حرارت نے بھی فصل پر منفی اثرات مرتب کیے جس کے نتیجے میں آم کی پیداوار کا حیاتیاتی سائیکل متاثر ہوا۔ اپریل کے مہینے میں جب پھل لگنا شروع ہوتے ہیں تو فصل کو شدید آندھی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے پیداوار میں بھی تقریباً پانچ فیصد کا نقصان ہوتا ہے۔ ضلع وہاڑی کے معروف بزنس مین اور سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی زاہد اقبال چوہدری نے کہا کہ ملک میں آم کی پیداوار کے لیے جدید تکنیک متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے جس سے پانچ سالوں میں فی ایکڑ پیداوار دوگنی ہو کر موجودہ 1.7-1.8 ملین ٹن سے 3.5 ملین ٹن ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیداوار کی زیادہ لاگت، خاص طور پر کھاد، کیڑے مار ادویات، بجلی کے بل اور موسمیاتی تبدیلیاں کم پیداوار کی بنیادی وجوہات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت باغبانی کے انتظام کے جدید طریقوں پر توجہ دے تو اوسطاً کاشتکار فی ہیکٹر پیداوار 12 ٹن سے بڑھا کر 22-25 ٹن کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آم کی پیداوار، معیار، شکل اور سائز کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، پوٹاشیم کی کھاد مہنگی ہے اور کاشتکار اس کے استعمال کو نظر انداز کرتے ہیں جس کی وجہ سے پیداوار کم ہوتی ہے۔ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے ایک سینئرممبر مطابق موسم گرما کی جلد آمد نے فصل کو پھل آنے کے عمل کے لیے مطلوبہ وقت نہیں ملنے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سال نہ صرف آم کی پیداوار کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا سامنا ہے بلکہ دیگر فصلیں جیسے کپاس، مکئی، گنا اور چارے کی پیداوار بھی گرمی کی لہر اور پانی کی قلت کی وجہ سے متاثر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مویشیوں کو بھی پانی کی قلت اور ہیٹ ویو کے سنگین مضمرات کا سامنا ہے۔