قبر: خاموش واعظ

5230

قرآن حکیم میں عذاب قبر کا کیوں بیان نہیں؟ حالانکہ اسے جاننے اور اس پر ایمان لانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ انسان خوف کرے اور تقویٰ اختیار کرے۔
اس کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے رسول پر دو قسم کی وحی اْتاری اور لوگوں پر واجب کردیا کہ دونوں طرح کی وحی پر ایمان لا کر عمل کرتے رہیں۔ فرمایا: ’’وہی ہے جس نے امیّوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اْٹھایا‘ جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگیاں سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (الجمعہ: 2)
’’کتاب‘‘ سے مراد قرآن اور ’’حکمت‘‘ سے مراد بالاتفاق سنت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جن باتوں کی خبر دی ان پر ایمان و تصدیق، ان باتوں کی طرح ہے جن کی حق تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی زبانی خبر دی۔ یہ مسلمانوں کا ایک اجماعی اصول ہے۔ کوئی فرقہ اس کے خلاف نہیں ہے۔ رحمت عالمؐ نے فرمایا کہ مجھے کتاب کے ساتھ اس کی مانند سنت بھی دی گئی۔ لہٰذا اگر کوئی مسئلہ قرآن میںنہیں اور حدیث میں ہے تو سمجھ لو، گویا قرآن ہی میں ہے کیونکہ حدیث بھی مثل قرآن ہی کے ہے۔
قرآن پاک میں بھی کئی جگہ برزخ کے عذاب و ثواب کا بیان ہے۔ مثال کے طور پر اس آیت میں، ترجمہ: کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈْبکیاں کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’’لائو‘ نکالو اپنی جان‘آج تمھیں اْن باتوں کی پاداش میں ذِلّت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔ (الانعام: 93)
یہ باتیں فرشتے موت کے وقت مرنے والوں سے کہہ رہے ہیں۔ فرشے سچے ہوتے ہیں۔ اگر یہ عذاب ان سے دنیا میں مرتے ہی ختم ہو جاتا تو یہ جملہ الیوم تجزون (آج تمھیں عذاب دیا جا رہا ہے) صحیح نہ ہوتا۔ فرمایا: ’’آخرکار اْن لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اْس مومن کے خلاف چلیں‘ اللہ نے اْن سب سے اْس کو بچا لیا‘ اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے۔ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں‘ اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو‘‘۔ (المومن: 45-46)
اس آیت میں صراحت سے برزخ و آخرت کے عذاب کا بیان ہے۔ فرمایا: ’’پس اے نبیؐ، انھیں اِن کے حال پر چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے اْس دن کو پہنچ جائیں جس میں یہ مار گرائے جائیں گے‘ جس دن نہ اِن کی اپنی کوئی چال اِن کے کسی کام آئے گی نہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ اور اْس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لیے ایک عذاب ہے‘ مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں‘‘۔ (الطور: 45-47)
عذاب قبر
اس سلسلے میں مختصر جواب تو یہ ہے کہ اس کے اسباب جہالت‘ حق تلفیاں اور گناہ ہیں۔ حق تعالیٰ ارباب محبت و معرفت اور فرماں برداروں کے بدنوں اور رْوحوں پر عذاب نہیں فرماتا‘ کیونکہ عذابِ قبر وعذاب آخرت اللہ کے غصے اور ناراضی کی نشانی ہیں۔ جس نے دنیا میں اللہ کو غصہ دلایا اور اسے ناراض کیا‘ پھر بلا توبہ کے مر گیا‘ اس پر بقدر اللہ کی ناراضی کے‘ برزخ میں عذاب ہوگا۔ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ‘ خواہ وہ برزخ کے عذاب کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔
حدیث میں ہے کہ رحمت عالمؐ نے دو شخصوں پر قبر میں عذاب ہوتا دیکھا۔ آپؐ نے عذاب قبر کی دو وجوہ بتائیں۔ ایک تو اِدھر کی اْدھر لگایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے نہیں بچا کرتا تھا۔ دوسرے نے تو پاکی کو چھوڑ دیا تھا جو واجب تھی‘ اور پہلا ایسی حرکت کرتا تھا کہ اس کی زبان سے لوگوں میں عداوت ہو جاتی تھی‘ اگرچہ واقعات سچے ہی بیان کرتا ہو۔
معلوم ہوا کہ جھوٹ و بہتان اور کذب و افترا سے لوگوں میں عداوت پیدا کرنے والا سخت ترین عذاب قبر میں مبتلا ہوگا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے نماز چھوڑ دی‘ جس کی شرطوں میں سے ایک شرط پیشاب سے پاکی بھی ہے‘ وہ بھی سخت ترین عذاب قبر میں مبتلا ہوگا۔ ابن مسعودؓ کی حدیث میں ہے کہ ایسا کوڑا مارا جس سے اس کی قبر آگ سے بھر گئی کیونکہ اس نے بلاوضو کے ایک نماز پڑھ لی تھی اور مظلوم کے پاس سے گزرا تھا تو اس کی مدد نہیں کی تھی۔ بخاری کی سمرہ والی حدیث میں گزر چکا کہ اْس پر قبر میں عذاب ہو رہا تھا جو جھوٹ بولا کرتا تھا اور دنیا میں اس کا جھوٹ پھیل جایا کرتا تھا ‘ اور اس پر بھی عذاب ہو رہا تھا جو قرأت قرآن کے باوجود رات کو سو جاتا تھا اور دن میں اس پر عمل نہ کرتا تھا۔ اسی طرح رحمت عالمؐ نے زناکار مردوں اور عورتوں پر اور سود خوروں پر برزخ میں عذاب کا مشاہدہ فرمایا۔ ابوہریرہؓ والی حدیث میں ہے کہ کچھ لوگوں کے سر پتھر سے کچلے جا رہے تھے‘ کیونکہ ان کے سر نماز سے بھاری ہو جاتے تھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ضریح و زقوم (دوزخ کے پھل) کھاتے تھے کیونکہ وہ زکوٰۃ نہیں دیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ بدبودار سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے کیونکہ زناکار تھے۔ بعض لوگوں کے ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے‘ کیونکہ وہ اپنی باتوں اور تقریروں سے فتنے بھڑکایا کرتے تھے۔ بعض کے منہ میں انگارے ٹھونسے جا رہے تھے جو ان کی دبر سے نکل جاتے تھے۔ یہ ظلم سے یتیموں کا مال کھانے والے تھے۔ کچھ عورتوں کی چھاتیاں بندھی ہوئی تھیں اور لٹک رہی تھی‘ یہ زناکار عورتیں تھیں۔ بعض کی کروٹوں سے گوشت کاٹ کاٹ کر انھی کو کھلایا جا رہا تھا‘ یہ چغل خور تھے۔ بعض کے تانبے کے ناخن تھے اور ان سے اپنا منہ اور سینہ کھرچ رہے تھے‘ یہ لوگوں کی آبروریزی کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے غنیمت کے مال میں سے چادر چرا لی تھی۔ آپؐ نے بتایا کہ اس پر اس کی قبر میں آگ بھڑک رہی ہے حالانکہ اس کا بھی مال غنیمت میں حق تھا۔ پھر جس کا کسی مال میں حق نہ ہو اور ظلم سے کسی کا مال مارے اس پر تو بدرجہ اولیٰ عذاب ہوگا۔