پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور دولے شاہ کے چوہے

790

صحافت میں نواز لیگ کے ترجمان اور روزنامہ جنگ کے کالم نگار محمد بلال غوری نے اپنے ایک حالیہ کالم میں کہا ہے کہ 2011ء میں سیاسی بندوبست کے لیے شروع کیے گئے ایک منصوبے ’’پروجیکٹ عمران‘‘ کے تحت دولے شاہ کے چوہے تیار کرنے کے کام میں تیزی آئی ہے۔ بلال غوری کے بقول یہ منصوبہ تو ناکام ہوچکا مگر مشکل یہ ہے کہ سیاسی بونوں کی جو کھیپ تیار کی گئی تھی وہ خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار خیال کرتی ہے۔ بلال غوری نے اگرچہ اپنے کالم میں دولے شاہ کے ایسے چوہوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کا دماغ کسی صوبائی یا لسانی تعصب کے تحت چھوٹا رہ گیا ہے مگر انہوں نے نام صرف عمران خان کا لیا ہے۔ حالاں کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا ایسی کون سی جماعت ہے جو دولے شاہ کے چوہے تیار کرنے کا کام نہیں کررہی۔
انسان اپنے نظریے اور نصب العین کے برابر بڑا یا چھوٹا ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کا نظریہ اور نصب العین بڑا ہے اس لیے جماعت اسلامی دولے شاہ کے چوہوں کے تجربے سے بچی ہوئی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں باقی جماعتوں کا حال پتلا ہے۔ عمران خان تحریک انصاف کا نظریہ بھی ہیں، نصب العین بھی، عمران خان پارٹی بھی ہیں، تنظیم بھی۔ وہ دن کو رات کہتے ہیں تو ان کے متاثرین بھی دن کو رات کہنے لگتے ہیں۔ فوج عمران خان کو سپورٹ کرتی ہے تو عمران خان کے متاثرین فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، فوج عمران خان کو ترک کردیتی ہے تو سوشل میڈیا فوج کے خلاف نعروں سے بھر جاتا ہے۔ عمران خان جب تک امریکا کے خلاف آواز بلند نہیں کررہے تھے تحریک انصاف میں ہر کوئی امریکا کے لیے نیک جذبات رکھتا تھا مگر جب سے عمران خان نے امریکا کو لتاڑنا شروع کیا ہے تحریک انصاف کے کارکنان جو امریکا کا یار ہے غدار ہے، غدار ہے کے نعرے لگارہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان اپنے متاثرین کو جیسا بنانا چاہتے ہیں وہ ویسے بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ صرف عمران خان اور تحریک انصاف کا معاملہ تھوڑی ہے۔ کبھی میاں نواز شریف کی سیاست بھی اسٹیبلشمنٹ کا ’’پروجیکٹ نواز شریف‘‘ تھی۔ اسی پروجیکٹ کے تحت میاں نواز شریف نے بھی بڑے پیمانے پر دولے شاہ کے چوہے پیدا کیے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود میاں نواز شریف بھی دولے شاہ کے ایک چوہے ہی ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی پس منظر ہی نہیں تھا، انہیں جنرل جیلانی اور جنرل ضیا الحق نے ’’پروجیکٹ نواز شریف‘‘ کے تحت پالا پوسا۔ اس زمانے میں میاں نواز شریف کا دماغ اتنا ہی بڑا تھا جتنا بڑا دماغ جنرل جیلانی اور جنرل ضیا الحق بنانا چاہتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کو بے نظیر سے نفرت تھی۔ چناں چہ میاں نواز شریف کو بھی بے نظیر سے نفرت تھی۔ جنرل ضیا الحق افغان جہاد کے سرپرست تھے اس لیے میاں صاحب بھی ’’جہادی‘‘ تھے۔ وہ بے نظیر بھٹو کو طعنہ دیتے ہوئے نعرہ لگایا کرتے تھے ’’تم نے ڈھاکا دیا ہم نے کابل لیا‘‘۔ اس جملے میں موجود لفظ ’’ہم‘‘ کا جواب نہیں۔ کابل افغان مجاہدین یا جنرل ضیا الحق نے فتح کیا تھا مگر میاں صاحب چوں کہ دولے شاہ کے چوہے تھے اس لیے وہ خود کو بھی فتح کابل میں حصے دار سمجھتے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے ملک میں گیارہ سال تک پرو پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی کی فضا پیدا کیے رکھی۔ میاں صاحب نے اس کھیل کو بھی گود لے لیا اور وہ دس پندرہ سال تک ملک کو پیپلز پارٹی کی حمایت اور مخالفت کی تفریق کی نذر کیے رہے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کے متاثرین کا تعلق ہے تو وہ دولے شاہ کے چوہوں کے بھی چوہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی کرپشن روز روشن کی طرح عیاں ہے مگر نواز شریف کی پارٹی کے ایک آدمی اور ان کے ایک بھی ووٹر نے اس کرپشن کی وجہ سے میاں نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک اچھا خاصا ’’فلسفہ‘‘ گھڑ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں نواز شریف کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ یہ طرزِ عمل صرف دولے شاہ کے چوہوں ہی کا ہوسکتا ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، چناں چہ میاں نواز شریف کی پارٹی کو بھی جمہوری ہونا چاہیے، مگر میاں صاحب نے 30 سال میں کبھی پارٹی کے اندر انتخابات نہیں کرائے۔ نواز لیگ کا کوئی رہنما یا پارٹی کا کوئی کارکن اس سلسلے میں نواز شریف سے سوال نہیں کرتا۔ وہ میاں نواز شریف سے نہیں پوچھتا کہ آپ نعرہ لگاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو مگر آپ پارٹی میں انتخابات کراکے ووٹ کو عزت کیوں نہیں دیتے؟ نواز لیگ میں جمہوریت کے بجائے موروثیت اور خاندانیت چل رہی ہے۔ میاں صاحب نہیں رہے تو میاں شہباز شریف نے ان کی جگہ لے لی۔ وہ نہیں ہوں گے تو مریم نواز ان کی جگہ لے لیں گی۔ مریم نواز نہیں ہوں گی تو حمزہ پارٹی کی قیادت کریں گے۔ اس صورت حال پر میاں صاحب کے لاکھوں پرستاروں کو کوئی اعتراض نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب لوگ دولے شاہ کے چوہے ہیں۔ میاں نواز شریف انسان ہیں ان سے بھی غلطی ہوسکتی ہے مگر آج تک پارٹی میں کسی نے میاں نواز شریف کی پالیسی سے اختلاف نہیں کیا۔ ایک زمانہ تھا کہ میاں نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کررہے تھے مگر ان کے ’’چھوٹے پن‘‘ کا یہ عالم تھا کہ وہ پنجاب میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگارہے تھے۔ اس لیے کہ میاں صاحب دولے شاہ کے چوہے تھے۔ ان کا دماغ چھوٹا تھا۔ اس کا ارتقا نہیں ہوسکا تھا۔ اس میں ’’اسلام‘‘ کیا ’’پاکستانیت‘‘ بھی داخل نہیں ہوسکی تھی۔ میاں صاحب کی 30 سالہ سیاست ہمارے سامنے ہے۔ میاں صاحب کا پاکستان پنجاب سے شروع ہوتا ہے، پنجاب میں آگے بڑھتا ہے اور پنجاب میں ختم ہوجاتا ہے۔ کراچی پنجاب سمیت پورے پاکستان کو پالتا ہے مگر میاں صاحب نے 30 برسوں میں کراچی کو گرین لائن بس کا منصوبہ دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میاں صاحب تین بار ملک کے وزیراعظم رہے مگر ان کی توجہ کراچی پر مرکوز نہ ہوسکی۔ مریم نواز بھی اس سلسلے میں اپنے والد پر گئی ہیں۔ چناں چہ وہ خود کو ’’اسلام‘‘ یا ’’پاکستان‘‘ کی ’’بیٹی‘‘ نہیں کہتیں۔ وہ خود کو ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کہتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کی طرح ان کے ذہن کا بھی ارتقا نہیں ہوسکا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں مہاجروں سے زیادہ مذہب پرست، مہذب اور تعلیم یافتہ کوئی نہیں تھا۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے لاکھوں مہاجروں کو دولے شاہ کے چوہوں میں تبدیل کردیا۔ الطاف حسین نے کراچی کو دہشت گردی کا تحفہ دیا، بھتاخوری کی سیاست دی، بوری بند لاشوں کا کلچر دیا، پرتشدد ہڑتالوں کا مزاج دیا، لاکھوں مہاجروں نے الطاف حسین کی ہر بات پر مہر تصدیق ثبت کی۔ ایک زمانہ تھا کہ مہاجروں کا تشخص سید مودودیؒ تھے، محمد حسن عسکری تھے، سلیم احمد تھے، پروفیسر غفور تھے، مفتی شفیع تھے، حکیم سعید تھے۔ مگر پھر ایک وقت آیا کہ الطاف حسین نے مہاجروں کو دولے شاہ کے چوہوں کا تشخص عطا کیا۔ چناں چہ کن کٹے، لنگڑے، کانے اور شرّی مہاجروں کے ہیرو بن کر اُبھرے۔ ایم کیو ایم میں کسی رہنما کی جرأت نہیں تھی کہ وہ الطاف حسین سے اختلاف کرسکتا۔ الطاف حسین اور ان کی سیاست نے لاکھوں لوگوں کے ذہنی ارتقا کو پست ترین سطح پر روک دیا تھا۔
بھٹو خاندان کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ لاکھوں سندھی بھٹو خاندان کی سطح سے بلند ہی نہیں ہوپاتے۔ ان کا ذہنی سفر بھٹو خاندان سے شروع ہوتا ہے، بھٹو خاندان کے دائرے میں آگے بڑھتا ہے اور بھٹو خاندان کے اوپر ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے تمام لوگ دولے شاہ کے چوہے ہیں۔ بھٹو صاحب، بے نظیر اور آصف زرداری سے اختلاف کرنے والا پیپلز پارٹی نے آج تک پیدا نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑے سیاست دان تھے مگر بے نظیر بھٹو ان کا سایہ بھی نہیں تھیں۔
ہم نے ایک بار پروفیسر غفور سے پوچھا کہ آپ نے بھٹو کو برتا ہے اور بے نظیر کو بھی آپ جانتے ہیں۔ ان دونوں میں آپ کو کیا فرق نظر آیا۔ کہنے لگے بے نظیر بھٹو کی اہلیت کا پاسنگ بھی نہیں مگر ان سے سو گنا زیادہ متکبر ہیں۔ آصف علی زرداری اور بلاول تو بے نظیر کا بھی پاسنگ نہیں۔ کیا کبھی سندھ کا روحانی، ذہنی اور نفسیاتی ارتقا ہوگا؟ کیا کبھی سندھی بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے چنگل سے نکلے گا؟ بظاہر اس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
پاکستان میں 1990ء کی دہائی اس اعتبار سے دلچسپ تھی کہ دائیں بازو کے ممتاز صحافیوں نے اس دہائی میں چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے عنوان سے ایک سیاسی فلسفہ ایجاد کیا تھا۔ ان صحافیوں میں محمد صلاح الدین، الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمن شامی سرفہرست تھے۔ ان لوگوں کے نزدیک چھوٹی برائی نواز لیگ تھی اور بڑی برائی پیپلز پارٹی۔ یہ لوگ جماعت اسلامی کے وابستگان سے کہتے تھے کہ آپ کو بڑی برائی کے خلاف چھوٹی برائی کا ساتھ دینا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے وابستگان چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے فلسفے سے بلند تھے ان کے لیے نواز لیگ میں کوئی کشش تھی نہ پیپلز پارٹی ان کے لیے رغبت کا سامان مہیا کرسکتی تھی۔ یہی صورت حال اس وقت بھی قوم کے سامنے ہے۔ ایک جانب نواز لیگ ہے، دوسری طرف تحریک انصاف ہے۔ جماعت اسلامی کے وابستگان ان دونوں جماعتوں سے بلند تر ہیں۔ پاکستان کے مسائل نہ نواز لیگ حل کرسکتی ہے نہ تحریک انصاف ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن معروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو عمران خان اور نواز شریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمران خان نے ملک و قوم کو شوکت خانم اسپتال لاہور اور پشاور کا تحفہ دیا ہے۔ وہ کراچی میں بھی شوکت خانم اسپتال قائم کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف کھرب پتی ہیں مگر انہیں کبھی کوئی اسپتال بنانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ عمران خان نے قوم کو نمل یونیورسٹی بنا کر دی ہے۔ میاں نواز شریف کھرب پتی ہونے کے باوجود کبھی قوم کو کوئی جامعہ بنا کر نہیں دے سکے۔ تحریک انصاف جیسی بھی ہے ایک وفاقی جماعت ہے۔ میاں نواز شریف کی نواز لیگ آج تک پنجاب کی سطح سے بلند نہیں ہوسکی۔ عمران خان کھل کر امریکا کو چیلنج کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ عمران خان کو آپ جس سطح کی بھی برائی سمجھتے ہیں سمجھیں مگر عمران خان کی برائی اس وقت تک ہے جب تک عمران خان زندہ ہیں۔ کل عمران نہیں ہوں گے تو ان کا کوئی متبادل نہیں ہوگا۔ مگر میاں نواز شریف کی برائی تو خاندانی ہے۔ وہ نہیں ہیں تو ان کا بھائی ملک کا وزیراعظم ہے، میاں شہباز شریف نہیں ہوں گے تو مریم نواز ان کی جگہ لے لیں گی۔ مریم نواز نہیں ہوں گی تو حمزہ یا مریم کا فرزند آگے آجائے گا اور اسی طرح قوم کو کبھی بھی شریفوں سے نجات نہیں مل سکے گی۔