ایک اور سری لنکا ؟

600

بہاولپور کے معروف سیاستدان بلیغ الرحمن کو پنجاب کا گورنر نامزد کیا گیا تو ہم نے اس حوالے سے اپنے کالم میں کہا تھا کہ بلیغ الرحمن کو پنجاب کا متوقع گورنر سمجھا جا رہا ہے مگر صدر مملکت عارف علوی وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی توقع پر پانی پھیرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ہمارا یہ تجزیہ ملکی حالات کے تناظر میں تھا کہ وطن عزیز کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ صدر مملکت کوئی بھی ہو وہ ملک سے زیادہ پارٹی قیادت کا وفادار ہوتا ہے اور علوی صاحب اپنی پارٹی سے کچھ زیادہ ہی وفادار ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پارٹی قائد سے وفاداری نبھانے کے نتیجے میں ملک میں جو معاشی بحران پیدا ہوگا اور جس کے ردعمل میں ملک ڈیفالٹر بھی ہو سکتا ہے اور وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے نامزد گورنر پنجاب کو اپنی پارٹی وفاداری کی بھینٹ چڑھا دیا حالاں کہ انہیں اس حقیقت کا اداراک ہے کہ وطن عزیز سیاسی بحران اور نفسی نفسی کی بدولت سری لنکا بن سکتا ہے۔
سری لنکا کے صدر نے ملک کے معاشی بحران پر استعفا دینے سے انکار کر دیا ہے اور قوم کو خبردار کیا ہے کہ اگر اسی طرح معاشی اور سیاسی بحران رہا تو ملک کو نادہندہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا مگر سری لنکا کے شہری ان کی کوئی بات باور کرنے پر آمادہ نہیں ان کا کہنا ہے کہ ملک کے سارے مصائب کا حل یہی ہے کہ صدر فوراً مستعفی ہو جائیں کیونکہ ملک میں معاشی اور سیاسی بحران کا سبب صدر مملکت ہیں۔ کرفیو کے باوجود سری لنکا کے عوام پر تشدد مظاہرے کر رہے ہیں نجی اور سرکاری املاک اور گاڑیوں پر آتش گیر مادے سے حملے کر رہے ہیں مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ صدر استعفا دیں ورنہ… اسی طرح مظاہرے ہوتے رہیں گے کیونکہ ملک کی معاشی تباہی کے ذمے دار صدر ہیں۔
حالات اور واقعات کے تناظر میں سری لنکا اور وطن عزیز کے سیاسی بحران اور معاشی بد حالی کا جائزہ لیا جائے تو سری لنکا اور پاکستان کے حالات میں مطابقت پائی جاتی ہے سری لنکا کے عوام کا خیال ہے کہ صدر مستعفی ہوجائیں تو حالت بہتر ہو سکتے ہیں ادھر وطن عزیز کا باشعور طبقہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی بھی مستعفی ہوجائیں تو ملکی حالات میں بہتری آسکتی ہے مگر علوی صاحب کا اصرار ہے کہ ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے بچنانے کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جو حکومت کو تبدیل کرنے کی سازش کی تحقیقات کرے اگر تحقیقات نہ کی گئی تو ملک کے سیاسی اور معاشی حالت مزید بگڑ سکتے ہیں، انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں یہاں یہ سوچنا غلط نہیں ہوگا کہ شیخ رشید کی پیش گوئی کہ لانگ مارچ خونیں مارچ ہو سکتا ہے کو صدر صاحب تقویت دے رہے ہیں اور قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قوم عمران خان کے پیچھے نہ چلی تو ملک کا آگا پیچھا تباہ ہو جائے گا حالات مزید سنگین ہوئے تو سڑکیں ہی نہیں گلی کوچے بھی رنگین ہو جائیں گے۔
صدر مملکت عارف علوی کا کہنا ہے کہ حالات بہت خطر ناک ہوتے جا رہے ہیں سیاسی حالات اور ملکی واقعات کے تناظر میں پاکستان کی عوام منتشر ہوتے جا رہے ہیں سیاسی تفریق بڑھتی جا رہی ہے سو موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے ملک کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے اپنی ذمے داریاں نبھائیں مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ سیاسی مبصرین اور ذمے داران کے تبصرے کے سیاق وسباق سے ہٹ کر ہیں جنہیں سن کر عوام تذبذب کا شکار ہو رہے ہیں ان حالات میں ضروری ہے کہ چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن قائم کر کے غلط فہمیوں کا ازالہ کریں علوی صاحب نے یاد دلایا کہ عدالت عظمیٰ نے ماضی میں بھی قومی سلامتی، خود مختاری اور مفاد وعامہ کے معاملات میں عدالتی کمیشن تشکیل دیے ہیں قوم عدالت عظمیٰ کا احترام کرتی ہے بھروسا رکھتی ہے۔
سری لنکا میں حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپیں روز کا معمول بن گیا ہے وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے بعد مظاہرین صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کے مظاہرے پر تشدد ہونے کے ساتھ ساتھ نفرت انگیز بھی ہوتے جار ہے ہیں انہوں نے ارکان پارلیمان کے گھروں اور سیاستدانوں کی رہائش گاہوں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا ہے حکومت کے پاس تیل کی درآمد کے لیے غیر ملکی کرنسی ناپید ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث لوڈ شیڈنگ بڑھتی جا رہی ہے شہری گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔
سری لنکا اور پاکستان کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ گمان یقین میں بدلنے لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما پاکستان کو سری لنکا بنانے کا تہیہ کر چکے ہیں حالاںکہ سیاسی اور معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کو سری لنکا بننے سے بچایا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ صدر مملکت استعفا دے کر گھر چلے جائیں تاکہ ملک میں سیاسی افراتفری نہ پھیلے قوم منتشر نہ ہو مگر بد نصیبی یہ ہے کہ علوی صاحب سیاسی انتشار پھیلا کر قوم کو سکیڑ رہے ہیں سوال یہ ہے کہ قوم سکڑ گئی تو ملک کا کیا بنے گا کاش وہ سمجھ سکتے کہ سیاست کا مفہوم کیا ہے یہ احساس کر سکتے کہ ملک قوم سے بنتا ہے قوم انتشار کا شکار ہو جائے تو ہجوم میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ہجوم کا کوئی رہنماء نہیں ہوتا ملک ملک نہیں رہتا شہر آرزو بن جاتا ہے عمران خان اور عارف علوی ملک کو شہر آرزو بنانے پر کمر بستہ ہیں مگر یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ملک شہر آرزو بن جائے تو قوم کی حسرت زدگی آنے والی نسلوں کو بھی حسرت زدہ کر دیتی ہے۔