ڈاکٹر عارفہ سیدہ

1190

ڈاکٹر عارفہ سیدہ۔۔ ان کی باتیں سننا سماعت کو حسن آشنا کرنا ہے۔ حسن بھی وہ کہ ہزار رنگ۔ خوشبو سی باتیں، باتوں کی خوشبو۔ ان کی چند منٹوں کی گفتگو نجانے کتنی کتابوں کے مطا لعہ، کتنے برسوں کے تجربات سے بڑھ کر ہوسکتی ہے۔ زندگی کی تیز رفتاری، افراتفری اور نفسی نفسی نے جب سے بیٹھکوں کی بے فکری کو لوٹا ہے، ماحول کی سنجیدگی، خوش ذوقی اور دل کی باتوں کو خواب کیا ہے گفتگو کرنے کا سلیقہ کہیں رستے میں گم ہوگیا ہے بجز ڈاکٹر عارفہ سیدہ کے۔ فی زمانہ جب کہ زندگی کا مقصد کچھ حاصل کرنا نہیں دوسروں کو حاصل کرنے سے روکنا ہے ڈاکٹر صاحبہ کی گفتگو حاصل ہی حاصل ہے۔ آدمی گم ہوکررہ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے موتیہ کی کلیاں چن رہا ہے۔ وصیت کرنے کودل چاہتا ہے کہ قبر پر پھولوں کے بجائے ڈاکٹر صاحبہ کی گفتگو بکھیردی جائے۔ پھول باسی ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کو ہم نے کبھی زندہ نہیں دیکھا اسکرین پر ہی دیکھا ہے۔ آنکھ جھپکے تو ہم چونک جاتے ہیں حالانکہ وہ بظاہر ایسی نہیں ہیں کہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھی جائیں۔ چاند پر چرغہ کاتتی بڑھیا سی دکھتی ہیں۔ چاند والی خاتون جو روشنی کاتتی ہیں زمین کی طرف بھیج دیتی ہیں سیدہ بالوں پر منکشف کردیتی ہیں۔ وہ نہ حال سے گریزاں ہیں نہ ماضی سے منحرف اور نہ مستقبل سے بے نیاز وہ جس طرف جاتی ہیں، جسے موضوع بناتی ہیں جالے صاف اور راہیں روشن ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ٹوئنکل ٹوئنکل کرتے تارے گویا ہوجاتے ہیں۔ جب ان کی باتوں کے طلسم سے نکل کر آدمی۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ان کی باتوں کے طلسم سے نکلا ہی کیوں جا ئے؟ آئیے ان کی باتیں سنتے ہیں:
٭ ہم وہ لوگ ہیں جو پیڑ لگانے سے پہلے پھل کھانا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک نسل پیڑ لگائے گی تو دوسری نسل کو وہ پھل میسر ہوں گے۔ ہمیں اس انتظار کی، اس برداشت کی، عادت تو الگ رہی۔۔ خیال بھی نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ صبر سے مدد مانگو۔ واستعینو بالصبر۔ ہم ہر چیز سے مدد مانگتے ہیں۔ ٹھیرتے نہیں، صبر نہیں کرسکتے۔ اور صبر کی ادنیٰ ترین مثال برداشت ہے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ میں اور آپ ایک سے لفظ بو لیں، ایک سی بات کریں۔ تو پھر ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ بات یہ ہے کہ صرف بات کرنا کافی نہیں ہے اس معاشرے میں بات سننا نہیں رہا۔ آپ کے کہنے سے پہلے جواب ملنے لگتا ہے۔ تو جو بات سنتا نہیں ہے وہ بات کہے گا کیا۔ میں اگر یہ نہ سمجھوں کہ آپ نے مجھ سے کیا پوچھا ہے تو پھر میرے جواب ایسے ہی ہوںگے جو کہیں کے بھی ہوسکتے ہیں۔ ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم زندگی کو املا لکھاتے ہیں۔ نہیں! معاف کردیجیے حضور! زندگی املا لکھتی نہیں ہے لکھواتی ہے اور بڑے جلی حرفوں میں جب لکھوانے لگے تو آپ کو ضرورت ہے ہوش کی آنکھیں کھول کے بیٹھیں۔ صرف شدت جذبات سے زندگی نہیں گزرتی۔ ہم میں سے سب ذمے دار ہیں۔ بات گہری ہوجائے گی۔ اجازت دیجیے۔ ہم سب اس لیے ہیں کہ کچھ اپنی خاموشی کے گنہگار ہیں۔ کچھ اپنی گفتار کے گنہگار ہیں کیونکہ نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے۔ نہ وہ جو بہت بول رہا ہے وہ کہیں پہنچتا ہے۔ وہ جو خاموش ہے وہ تو جم گیا ایک جگہ پر۔ اس کی خاموشی کی سیکڑوں باتیں ہوسکتی ہیں، جبر ہوسکتا ہے وہ جبر اسے نہ بولنے دے۔ خاموشی کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ ایک بہت معمولی بات کہیں اور وہ آپ کے لیے ایک امتحان بن جائے۔ میں ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں بات کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔آپ کو میری بات اچھی نہ لگے تو کہہ دیجیے کہ آپ یہاں یہ ٹھیک نہیں سمجھ رہیں۔ آپ کے لفظ یہاں نامناسب ہیں۔ بولنے کے شوق میں جو چیز سب سے پہلے بے آبرو ہوتی ہے وہ زبان ہوتی ہے۔ اس ملک میں زبان کی آبرو نہیں رہی۔ مجھے کہنے دیجیے جو حرم نبوی میں زبان بولی گئی اور پھر اس کو پناہ میں رکھنے کے لیے جو دلیلیں دی جارہی ہیں اس سے تو خاموشی بہتر تھی۔ یہ کہہ دینا کافی تھا جو ہوا اچھا نہیں ہوا۔ وہ فاصلے تعین کررہے ہیں کہ کتنی دور یہ بات کہی گئی تھی، کتنی دور یہ بات نہیں کہی گئی۔ یہ جواز تو وہ ڈھونڈتا ہے جس کی دلیل کمزور ہوتی ہے۔ جس کی دلیل مضبوط ہے اسے جواز کی ضرورت ہی نہیں۔ آواز وہ اونچی کرتا ہے جس کی دلیل نیچی ہوتی ہے۔ بڑھانا ہے تو دلیل کو بڑھائو۔ اس کا وزن بڑھائو۔ آواز اونچی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔ جب میں محبت اور عزت سے پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں اپنی نسلوں کو۔ وہ سارے کے سارے عالم فاضل لوگ نہیں تھے مگر وہ سارے کے سارے لوگ شاکر لوگ تھے۔ جسے روکھی روٹی ملتی تھی وہ بھی شکر میں تھا۔ جو شیر مال کھاتا تھا وہ بھی شکر میں تھا۔ شکر گزاری آپ کو فرعون ہونے سے بچاتی ہے۔
٭ میں تحقیق کے سلسلے میں ہندوستان لکھنؤ گئی۔ مجھے میرے دوستوں نے کہا دیکھو عارفہ یہاں بھی پاکستان جیسا حال ہے جو دام بتائیں اسی دام پہ مت خرید لیا کرو۔ یہاں بھی بھائو تائو ہوتا ہے۔ میں ایک دن یونیورسٹی سے واپس آرہی تھی تو ایک بزرگ کیلے بیچ رہے تھے۔ ایک پنجابی سے جتنی تہذیب لکھنؤ میں ممکن ہوسکتی تھی تو میں نے ان سے پوچھا آج کیا بھائو دیجیے گا۔ محبت سے بولے بٹیا آج تو تین روپے کا بھائو ہے۔ میں نے اپنی طرف سے سبق یاد کیا ہوا دہرایا کہ ڈھائی روپے نہ دے دیجیے گا؟ ان کا جواب سنیے۔۔۔ کہ بٹیا پونے تین والے تو ارمان لے کے چلے گئے۔
٭ ہم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ زندگی صرف مادی ترقی کا نام ہے۔ پہلی غلطی یہاں ہے۔ میری نسل جب اس معاشرے میں پل بڑھ رہی تھی تو مجھے تصور دیا گیا تھا تعلیم راستہ ہے علم تک پہنچنے کے لیے۔ تعلیم منزل نہیں ہے اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جو منزل پر یقین ہی نہیں رکھتے اصل دولت تو راستہ ہے۔ جتنا آگے بڑھتے جاتے ہیں منزل کا معیار بڑھتا جاتا ہے۔ جو کہیں ٹھیر جاتا ہے وہ تھک جاتا ہے اس کو پھر دور تک روشنی نظر نہیں آتی۔ اس راستے کو جو چیز روشن کرتی ہے وہ تربیت ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ رستے پر چلنے کو کہتے ہیں بغیر روشنی کے۔ تربیت نہیں کرنا چاہتے۔ تعلیم راستہ ہے تربیت اس راستے کی روشنی ہے۔
٭ شہر لاہور میں یا پاکستان میں کہیں بھی جب دو لوگ آمنے سامنے سے گزرتے تھے تو سلام کرتے تھے۔ وہ جانتے نہیں تھے ایک دوسرے کو۔ راہ گزر کے لوگ تھے اور راہ گزر کے لوگ ایک دوسرے کو سلامتی سے یاد کرتے تھے ہم یہ لفظ سلامتی بھول گئے۔ اس سلامتی کی جگہ ہم نے یاد رکھا ہے خود کو محفوظ کرلینا اور ہم نے خود کو محفوظ کیا اس قلعے میں جسے ہم خرید سکیں۔
٭ زندگی ان قدروں سے تعبیر ہے جو خریدی نہیں جاسکتیں۔ جن کے لیے جان کی قیمت بھی دے دی جائے تو کم ہوتی ہے۔ ہماری طبیعت میں جو شدت پسندی آئی ہے وہ اس خیال سے آئی ہے کہ پیڑ لگنے سے پہلے پھل مل جائے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ جو پیڑ لگائے وہ یہ سوچے کہ پھل میں اس کا حصہ نہیں ہے پیڑ کی نگہداشت میں اس کا حصہ ہے پھل کسی اور کے حصے میں آئے گا۔ جو دینا نہیں جانتے وہ لینا نہیں جانتے۔ شرط تو یہ ہے کہ دردل کُشاہو اور دامن دل وا، زباں پہ حرف دعا ہو اور خیال میں نیت کی آبرو موجود رہے۔ ہم نیت کی آبرو پر تو یقین ہی نہیں کرتے۔
٭ میرا خیال ہے زندگی کسی ایک شخص کی یاکسی ایک گروہ کی یاچند لوگوں کی ذمے داری نہیں ہے۔ میں آج جو بھی ہوں میں ہاتھ جوڑ کر شکریہ ادا کرتا ہوں اس وقت کے معاشرے کا جس میں میں پلی بڑھی تھی۔ مجھے ابھی تک یاد ہے میں یونیورسٹی میں پڑھتی تھی اور تیزی سے سڑک پار کررہی تھی۔ پیچھے سے آواز آئی ’’بچہ ٹھیرو‘‘ میں وہیں رُک گئی۔ وہاں ایک ریڑھی والا گزر رہا تھا۔ اس میرے مہربان نے مجھے تیزی سے گزرنے کو اس لیے روکا تھا کہ مجھے چوٹ نہ لگ جائے۔ میری چوٹ کی اس راہ گیر کو فکر تھی۔ اب میں سڑک پر گر بھی جائوں تو کوئی یہ کہے گا میرا سر ڈھنپا ہوا نہیں ہے، کوئی کہے گا میرا لباس مناسب نہیں ہے۔ کوئی کہے گا ان جیسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ آپ سوچیے ہم کہاں سوچ رہے ہیں۔ (یہ سنہری باتیں یوٹیوب پر مزید سنی جا سکتی ہیں)