اصلاحی ادب کے لیے کوشاں حریم ادب

309

کورونا کی وجہ سے مسلسل دو سال پابندیوں کے بعد ہر کام اپنے معمول پر آ رہا ہے۔ زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہو چکی ہے۔ ابتلا کے بعد جب شادانی و فرحانی کا دور آتا ہے تو اس خوشی کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا سے جان چھوٹی تو لوگوں کی چہل پہل اور بازاروں کی رونقیں بحال ہو گئیں۔ سارے پاکستان میں مختلف نمائشوں کا انعقاد ہونے لگا لیکن جب ایکسپو سینٹر لاہور میں 13 مئی کو کتب میلے کے انعقاد کا سنا تو دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ اچھی کتابیں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ مجھے کتب بازار میں جانا ہی سب سے اچھا لگتا ہے۔ شادی کے بعد جب میرے میاں نے پوچھا کہ ’’میں تمہیں کہاں گھما پھرا کر لاؤں؟‘‘ تو میں نے اْردو بازار لاہور میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور شوہر کے گھر میں سب سے زیادہ خوشی اسٹڈی روم دیکھ کر ہوئی۔ دوسری طرف حریم ادب کی طرف سے بھی حریمِ ادب کے اسٹال پر آنے کا دعوت نامہ موصول ہو گیا پھر جانا تو بنتا تھا نا۔ ہال میں داخل ہوتے ہی ہر طرف کتابیں ہی کتابیں دیکھ کر دل کو جو سرور حاصل ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ اچھی کتاب اچھی دوست اور تنہائی کی بہترین ساتھی ہے اور پھر اصلاحی ادب تو ہماری اخلاقی اور معاشرتی تربیت کرتا ہے۔ کتاب بہترین ساتھی ہی نہیں بلکہ استاد بھی ہے۔ اصلاحی ادب کی بات کی جائے تو اس سلسلے میں اگر حریمِ ادب کی کوششوں کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ نا انصافی ہے۔
حریم ادب خواتین لکھاریوں کی ایک ادبی انجمن ہے جو رضائے الٰہی کے لیے قلم کے محاذ پر کھڑی ہیں۔ جن کی اصلاحی تحریریں ناصرف گھریلو معاملات چلانے میں مدد گار ثابت ہوتیں ہیں بلکہ معاشرتی اور بعض اوقات ریاستی اصلاح کا احاطہ بھی کرتیں ہیں۔ حریم ادب کا نظریہ ِ ادب ترتیب وار اس طرح ہے کہ ادب برائے زندگی، زندگی برائے بندگی، زندگی بے بندگی شرمندگی۔ حریم ادب کے مقاصد، معاشرے کی مثبت اہل قلم عناصر کو مربوط اور متحرک کر کے ادب میں مثالی اقدار اور تہذیب کو متعارف کروانا ہے۔ ادبی تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں صحت مند مزاج کو فروغ دینا ہے۔ اس تنظیم کے اہداف بھی شاندار ہیں۔ یعنی ادبی نگارشات کے ذریعے مثالی معاشرے کی صورت گری کرنا ہے۔ معاشرتی اقدار، روایات اور تصورات کو درست سمت میں گامزن کروانا ہے۔ لکھاریوں سے با مقصد ادب تخلیق کروانا ہے۔ معدوم ہونے والے اصلاحی اور مثبت ادب کی تشہیر کرنا ہے۔ اس ادارے کی سرگرمیاں سارا سال جاری رہتی ہیں۔ ادبی نشستوں اور کنونشن کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مختلف تحریری مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ لکھاریوں کے لیے ورکشاپ اور تربیتی لیکچر دیے جاتے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ ان کی نگارشات کی اشاعت اخبارات اور مختلف سائٹس پر کروائی جاتی ہے۔ انہیں ایام کے لحاظ سے لکھنے کے لیے موضوعات بھی دیے جاتے ہیں۔ یہ ادارہ پورے پاکستان میں کام کرتا ہے۔ اس کی مرکزی صدر محترمہ عالیہ شمیم ہیں جبکہ صوبائی اور ضلعی سطح پر نگران مقرر ہیں۔ میں جس علاقے میں رہتی ہوں یہ وسطی پنجاب کا علاقہ کہلاتا ہے اور اس کی نگران محترمہ مسز عصمت اسامہ اور نائب نگران محترمہ شاہدہ اقبال ہیں۔ جو دونوں خود بھی لکھاری ہیں اور ادبی شعور و فہم رکھتی ہیں۔
حریم ادب کا اسٹال اپنے تھیم کلر، ہلکا گلابی اور سفید رنگ کے غباروں سے سجا ہوا تھا اور میزوں پر مزے مزے کی کتابیں جلوہ افروز تھیں۔ فلاح خاندان سے متعلق اور کئی دوسرے اصلاحی کتابچے موجود تھے جن میں لوگ دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے یہ کتابچے خریدے بھی۔ میں نے اسٹال پر تقریباً تین گھنٹے گزارے۔ عصمت اسامہ اور شاہدہ اقبال دونوں خود اسٹال پر موجود تھیں۔ اس کے علاوہ شعبہ نشر و اشاعت کی ناظمہ رخسانہ اقبال راؤ اور ساتھی لکھاری منیبہ مختار بھی موجود تھی۔ کتابوں کا خوبصورت گلشن چھوڑنے کو دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن واپس تو آنا ہی تھا۔ یہ خوشگوار وقت گزارنے کے بعد واپسی کا راستہ لیا اور دل سے دعاگو تھی کہ ’’یا اللہ ایسے اصلاحی، ادبی اداروں کو پاکستان کی سدا زینت بنائے رکھنا۔ اس سر زمین پر اس طرح کے کتب میلے سجائے رکھنا۔ موبائل کی چکاچوند میں نوجوان نسل کا کتا ب سے کمزور پڑتے رشتے کو پھر سے طاقتور بنا دے اور وہ کتب بینی کی فروغت کے لیے خود سے اٹھ کھڑے ہوں‘‘۔ کیونکہ زندہ قومیں علم و کتاب کو ہمیشہ مقدم رکھتی ہیں۔