کراچی پھر دہشت گردی کے نشانے پر

429

قارئین کرام کو یاد ہوگا جب کراچی یونیورسٹی کے گیٹ پر ایک خاتون خود کش بمبار نے خود کو اُڑا لیا تھا۔ اس تکلیف دہ واقعے کو بمشکل ایک ہفتہ گزرا تھا کہ کراچی کے مصروف کاروباری علاقے صدر میں بم دھماکے کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ تیرہ افراد زخمی ہوگئے، چھے سے زائد گاڑیاں تباہ، جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکہ خیز مواد سائیکل کے پیچھے کیریئر میں نصب تھا۔ بم دو سے اڑھائی کلو وزنی اور دیسی ساختہ تھا۔ ایک اور دھماکا بھرے بازار میں ہوا جس میں ایک خاتون جان بحق ہوگئیں۔ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کا جنم لینا انتہائی خطرناک ہے۔ اگر اس طرح کے مزید واقعات رونما ہوتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دشمن ہمارے ملک کے اہم ترین معاشی و تجارتی شہر میں خوف و ہراس پیدا کرکے ملکی معیشت کا پہیہ جام کرنا چاہتا ہے۔ درحقیقت ملک بھر میں ماہِ جنوری سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر افسوسناک اور ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ اخبارات کی فائلیں اُٹھا کر دیکھ لیجیے، ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے ملک کے چھوٹے، بڑے تقریباً تمام شہروں میں رونما ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں متعدد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔ پہلے ایسے واقعات کا سلسلہ زیادہ تر خیبر پختون خوا کے جنوبی اور قبائلی اضلاع تک ہی محدود تھا۔ ایسے میں سوال اُٹھ رہا ہے کہ ان واقعات میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں 2017ء کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہوچکی تھی۔ اس کا اندازہ اعداد وشمار کی مدد سے لگایا جائے تو سائوتھ ایشیا ٹیرر ازم پورٹل کے مطابق 2013ء میں پاکستان میں دہشت گردی کے تقریباً چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020ء میں کم ہوکر 319 رہ گئے تھے۔ ان میں سے بھی کئی واقعات ایسے تھے جن میں کالعدم تحریک طالبان، القاعدہ جیسے شدت پسند گروہوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور خیال کیا جارہا تھا کہ ملک میں موجود دہشت گردوں کی کارروائیوں کا دائرہ کار انتہائی محدود ہوچکا ہے اور دہشت گرد گروہ ملک بدر کردیے گئے ہیں۔ اس دورانیے میں ایسی رپورٹیں موصول ہوئیں کہ کالعدم تحریک طالبان زیادہ تر اراکین افغانستان فرار ہوچکے تھے اور کئی جیلوں میں قید ہیں۔ اگلے تین سال میں پاکستان میں ان کی واپسی ہوئی جسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ اس کا ایک اظہار پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی شکل میں بھی ہوا۔ گزشتہ برس اگست میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور اس کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی ایک ایسا واقعہ ہے جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان میں دو مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔ حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی دائمی ہے یا وقتی۔ اس سوال سے قطع نظر یہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے خاتمہ بلکہ افغانستان میں امن و استحکام کی بحالی کے لیے بھی عالمی اور علاقائی فورموں پر بھرپور کردار ادا کیا اور امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات بھی یقینی بنائے۔ پاکستان کے اس موثر کردار کی بنیاد پر ہی امریکی ناٹو فورسز اور ان کے شہریوں کے لیے افغانستان سے پُرامن واپسی ممکن ہوئی جس کے بعد طالبان کو بغیر کسی مزاحمت کابل تک پہنچنے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا موقع ملا۔
جب طالبان حکومت پر عائد امریکی پابندیوں کے باعث افغانستان میں انسانی بحران کا آغاز ہوا تو پاکستان نے اس بحران سے نکالنے کے لیے بھی طالبان حکومت کے حق میں علاقائی اور عالمی فورموں پر آواز اُٹھائی اور عالمی سطح پر کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا مگر طالبان نے اس کا صلہ پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ اکھاڑ کر دیا۔ طالبان حکومت کے ذمے دار افراد نے پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا۔ طالبان حکومت کی اسی آشیرباد نے بھارتی دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے اور یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کا نادر موقع فراہم کیا۔ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ طالبان کے دور میں بھی پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھنے ہی کا شاخسانہ ہے۔ اس سے آنے والے دنوں میں افغان سرحد کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کو مزید خطرات لاحق ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہمارے دشمن بھارت کو بھی یقینا طالبان حکومت کی اس مخاصمانہ پالیسی کے باعث ہی اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے اور یہاں دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کا نادر موقع مل رہا ہے اس لیے افسوس ناک واقعات پر محض افغان ناظم الامور کو طلب کرکے انہیں رسمی احتجاجی مراسلہ تھمانا ہی کافی نہیں بلکہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو افغان اعلیٰ قیادت سے اس سلسلے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے پر بات چیت کرنا چاہیے۔ طالبان پر واضح کیا جائے کہ اگر ان کے پاس دہشت گردوں کو روکنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں تو پھر پاکستان از خود آگے بڑھ کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کا مسئلہ ہے جس سے کسی بھی طور صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ درحقیقت بھارت اپنے اندرونی معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہا ہے لیکن ان منفی ہتھکنڈوں سے اسے پہلے کچھ ملا اور نہ ہی آئند ملے گا۔ بھارت کو چاہیے کہ اپنے اندرونی معاملات کو درست کرے اور مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں سے جو نفرت روا رکھی جارہی ہے، اس دور کرے۔