منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا،تاحیات نااہلی سے بچ گئے،عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل اے کا فیصلہ سنادیا

411

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے قراردیا ہے کہ منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگاتاہم نااہلی سے متعلق فیصلہ پارلیمنٹ کرے، قانون سازی کا درست وقت یہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کی درخواستیں خارج کردیں اور پی ٹی آئی منحرف ارکا ن تاحیات نا اہلی سے بچ گئے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ تین، دو کی اکثریت سے فیصلہ سنایا جاتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اختلافی نوٹ لکھے جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی رائے دی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس نمٹایا جاتا ہے، سوال تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار ہو یا نہیں، آرٹیکل 63 اے اکیلا پڑھا نہیں جاسکتا، آرٹیکل 63 اے اور آرٹیکل 17سیاسی جماعتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے، سیاسی جماعتوں میں استحکام لازم ہے، انحراف کینسر ہے، انحراف سیاسی جماعتوں کو غیرمستحکم اور پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل بھی کرسکتاہے، سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں، سیاسی جماعتوں کے حقوق کا تحفظ کسی رکن کے حقوق سے بالا ہے، منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا۔ عدالت عظمیٰ نے تاحیات نااہلی کا سوال واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس میں انحراف پر نااہلی کا سوال بھی پوچھا گیا، انحراف پر نااہلی کے لیے قانون سازی کا درست وقت یہی ہے، ریفرنس میں پوچھا گیا چوتھا سوال واپس بھیجا جاتا ہے، نا اہلی کی مدت پارلیمنٹ کا اختیار ہے ، پارلیمنٹ قانون سازی کرے۔جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں، آرٹیکل 63 اے انحراف اور اس کے نتائج پر مکمل ضابطہ ہے، کسی رکن کیانحراف پر الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کے ڈیکلریشن کے مطابق ڈی سیٹ کرتا ہے۔جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ کے بعد رکن کے پاس عدالت عظمیٰسے رجوع کا آپشن موجود ہے، آرٹیکل 63 اے کی اس سے زیادہ تشریح آئین پاکستان دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگی، صدرمملکت نے عدالت عظمیٰ سے دوبارہ آئین لکھنے سے متعلق رائے نہیں مانگی۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ صدر کے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات میں کوئی جان نہیں، ان سوالات کاجواب ناں میں دیاجاتا ہے، اگرپارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عایدکرسکتی ہے۔عدالت عظمیٰ کا مختصر تحریری فیصلہ 8 صفحات پر مشتمل ہے، تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلے نہیں پڑھا جاسکتا، آرٹیکل 63 اے کو آئین میں موجود شقوں سے الگ کرکے بھی نہیں پڑھا جاسکتا، آرٹیکل 63اے کا اطلاق منحرف رکن کے ووٹ دینے کے وقت سے نہیں ہوتا، آرٹیکل 63اے کا اطلاق پارلیمانی پارٹی ہدایات سے انحراف سے ہوتا ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے آرٹیکل 17 ٹو میں دیے گئے سیاسی جماعتوں کے حقوق کاتحفظ کرتاہے، آرٹیکل63 اے قانون سازی میں سیاسی جماعتوں کو تحفظ دیتا ہے، سیاسی جماعتیں ہماری جمہوریت کا بنیادی جز ہیں، سیاسی جماعتوں میں عدم استحکام جمہوریت کی بنیاد ہلاتا ہے، انحراف سیاسی جماعتوں کے استحکام کے لیے تباہ کن ہے، انحراف کو کینسر قرار دینا درست ہے، موزوں یہی ہے کہ انحراف ہونا ہی نہیں چاہیے، سیاسی جماعتوں کی ہم آہنگی کا احترام کیا جانا چاہیے، سیاسی جماعتوں کو غیر آئینی، غیرقانونی حملوں اور توڑپھوڑ سے محفوظ رکھا جائے، تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔آرٹیکل 63اے ریفرنس کی سماعت کے اختتام پر پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کی سرزنش ہوئی۔ بابراعوان نے کہا کہ مجھے سنا جائے سب سے بڑی سیاسی جماعت کا مؤقف پیش کرنا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کی نظر میں کوئی پارٹی چھوٹی بڑی نہیں سب برابر ہیں۔چیف جسٹس نے بابر اعوان کو انتباہ کیا کہ جب عدالت بات کر رہی ہو تو بیچ میں مداخلت مت کریں اور عدالت کی بات سنیں، آپ ہمیں مت بتائیں کہ کون سی بڑی ہے، عدالت نے یہ کیس پارٹی کے سائز کی وجہ سے نہیں بلکہ آئین کی تشریح کے لیے سنا ہے، آپ کا مؤقف ہم نے 2 مرتبہ سنا آپ کے نکات ہمیں سمجھ آگئے ہیں، اب آپ 2منٹ میں کیا کہنا چاہتے ہیں ہم 2منٹ اور بیٹھ جاتے ہیں۔بابر اعوان نے کہاکہ میں 2 منٹ نہیں بلکہ 10منٹ لوں گا تاہم عدالت نے بابر اعوان کو 10منٹ دینے کی استدعا مسترد کر دی۔فیصلے کے ردعمل کے پیش نظر عدالت عظمیٰ کے اندر اور باہر اضافی سیکورٹی تعینات کردی گئی تھی۔ عدالت عظمیٰ پارکنگ کو جانے والے ایک راستے کو سیل کردیا گیاتھا۔ عدالت میں داخل ہونے والے افراد کی شناخت لازمی قراردے دی گئی۔ اعلیٰ پولیس افسران سمیت پولیس کی بھی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔