سندھ میں پانی کا بحران

767

کیوں کہ ہم بحرانوں کی ماری ہوئی قوم ہیں اس لیے ہر وقت کوئی نہ کوئی بحران ہماری تاک میں لگا رہتا ہے اور ہم ہر نئے آنے والے بحران کے ہاتھوں سے مزید پریشان، بدحال اور نڈھال ہوجاتے ہیں۔ اس وقت صوبہ سندھ پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے اور بھلا سندھ کا کون سا ایسا علاقہ ہے جہاں سے پانی کی کمی کی شکایات سامنے نہ آرہی ہو؟ سندھ کے ہر کونے اور ہر گوشے سے پانی کی شدید قلت پر عوام کی جانب سے سخت احتجاج کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے لوگ روڈ راستے بلاک اور مقامی پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی دھرنے دے رہے ہیں۔ سندھ میں پانی کی قلت میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہورہا ہے۔ محکمہ آب پاشی سندھ کے مطابق اس وقت پانی کی قلت 48 فی صد ہے، جب کہ ماہرین آبپاشی کا کہنا ہے کہ دراصل پانی کی کمی 70 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ سندھ کے ہر شہر اور ہر قصبے میں پانی کی قلت کے خلاف عوام کا پرزور احتجاج جاری ہے۔ جسے دیکھ کر بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل سندھ پانی کی کمی کی وجہ سے آج کل کتنی زیادہ اذیت اور پریشانی سے دوچار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ قبل ازیں پانی کی کم یابی کے حوالے سے آہ و فغاں اور احتجاج صرف ہاریوں اور کسانوں کی جانب سے زرعی پانی کے حصول کی خاطر ہی ہوا کرتا تھا لیکن اب صورت حال اتنی ابتر اور خراب ہوچکی ہے کہ اب مال مویشی، جانوروں اور انسانوں کے لیے بھی پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ جس جگہ خوش قسمتی سے پانی دستیاب ہے بھی تو وہ صاف اور پینے کے قابل نہیں ہے بلکہ یہ پانی آلودہ، میلا، گدلا اور سنکھیا ملا زہر آلود پانی ہے جو اسے استعمال کرنے والوں میں موذی اور جان لیوا بیماریوں کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تشویش ناک اور پریشان کن صورت حال میں حکومت سندھ کیا کررہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہی کچھ جو وہ ہمیشہ سے کرتی آرہی ہے اور ازل سے جو اس کا وتیرہ رہا ہے۔ یعنی کسی نوع کے عمل کے اس کے متعلقہ ذمے داران نے روایتی انداز میں محض زبان کی جگالی کرنے اور بیان بازی پر ہی اکتفا کررکھا ہے۔

محکمہ ماحولیات سندھ کے صوبائی وزیر اسماعیل راہو کے مطابق صوبہ میں پانی کی قلت کی ذمے دار عمران خان کی سابق حکومت ہے جس نے سندھ کو دریا کا پانی بہت کم فراہم کیا، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی نکالنے کے لیے پمپنگ کے رجحان میں اضافہ ہوا اور گزشتہ 4 برس میں سندھ کا زیر زمین پانی اتنی زیادہ مقدار میں نکالا گیا ہے کہ مستقبل میں پانی کی مزید شدید کمی ساتھ ساتھ پانی کڑوا اور ناقابل استعمال بھی ہوسکتا ہے اور جنوبی سندھ کا پانی تو ناقابل استعمال ہو بھی چکا ہے۔ جس کے سبب ماحولیات اور منفی موسمیاتی تبدیلیوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جس سے انسانوں، پرندوں اور آبی جانوروں کی زندگی پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ گرمی کی حدت اور شدت ہر سال مزید تیزی سے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آگے چل کر سندھ کی زرخیز زمین بنجر ہونے اور فصلوں کی پیداوار میں بہت زیادہ کمی ہونے کا خدشہ لاحق ہوچکا ہے۔ ان عوامل کی بنا پر وزیر موصوف نے اہل سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ زیر زمین پانی نکالنے کے لیے پمپنگ کا استعمال کم کردیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پانی کی شدید کمی رونما ہوچکی ہے اور کسان اپنی فصلوں اور عوام پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے کی خاطر نکلے ہوئے ہیں عین اسی وقت ہمارے وزیر موصوف کو زیر زمین پانی کے بہ کثرت استعمال کے مضمرات اور نقصانات کے حوالے سے اہل صوبہ کو اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ اگر وہ اس بارے میں چار برس پیش تر ہی عوام کو آگاہی فراہم کردیتے اور زیر زمین پانی غیر ضروری طور پر نکالنے کے رجحان کو روکنے کے لیے قدم اٹھاتے تو شاید آج صورت حال اتنی خراب ہوتی اور نہ ہی مستقبل میں وہ خطرات لاحق ہوتے جن کا ڈراوا دے کر وہ زیر زمین کم پانی نکالنے کا مشورہ عوام کو دے رہے ہیں۔

آج سندھ بھر میں ایک طرف انسانوں اور جانوروں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے تو دوسری طرف فصلوں کو بھی جس مرحلے پر زرعی

پانی کی دستیابی بے حد ضروری ہوتی ہے وہ میسر نہیں ہے، جس کی وجہ سے بے چارے ہاریوں کی جان بھی سولی پر لٹکی ہوئی ہے کہ مباد ان کی ساری محنت اور فصل پر کی گئی سرمایہ کاری رائیگاں چلی جائے۔ عام ہاری اس امر کے شاکی پائے گئے ہیں کہ اول تو مطلوبہ مقدار میں انہیں فصل کے لیے پانی ہی میسر نہیں ہے اور جہاں جہاں اگر خوش قسمتی سے پانی دستیاب ہے بھی تو علاقے کے مقامی وڈیرے، بڑے زمیندار اور حکومتی جماعت پی پی سے وابستہ ایم پی ایز، ایم این ایز اور وزرا زبردستی نہروں سے پانی چرا کر اپنی فصلوں کو دے دیتے ہیں جس کی بنا پر ان کی تیار اور کھڑی فصلیں آخری مرحلے میں پانی کی عدم دستیابی سے جل جاتی ہیں اور غریب بے بس ہاریوں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے سندھ کی بہت ساری قابل ذکر بااثر سیاسی شخصیات الزامات کی زد میں ہیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری کے منظور نظر ضلع نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے علی حسن زرداری اور قوم پرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی کے نام نمایاں ہیں۔ ہاریوں کا الزام ہے کہ بااثر سیاسی شخصیات نے اپنے جو غیر قانونی اور ناجائز واٹر کورسز بنوارکھے ہیں ان کے ذریعے وہ سارا زرعی پانی جبراً اپنی فصلوں کے لیے استعمال کرلیتے ہیں اور غریب عام ہاری منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ان کی فصلیں پانی نہ ملنے سے جل جاتی ہیں۔ محکمہ آب پاشی سندھ کے ذمے داران کو بااثر سیاسی شخصیات کے سامنے دَم مارنے تک کی جرأت نہیں ہے کہ وہ بااثر وڈیروں، بھوتاروں اور سرداروں کے خلاف پانی چوری کرنے یا زبردستی اپنی فصلوں کو دینے پر کسی نوع کی کوئی قانونی کارروائی کرسکیں۔

’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کا محاورہ شاید ایسی ہی صورت حال کے لیے مستعمل ہے۔ سندھ میں آج کل قیامت خیز گرمی پڑ رہی ہے۔ اس پر مستزاد بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا ظالمانہ سلسلہ جاری ہے اور 24 گھنٹوں میں بمشکل 4 تا 6 گھنٹے بجلی دستیاب رہتی ہے۔ بجلی کا وولٹیج اکثر انتہائی کم ہوتا ہے کہ اس کا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔ شدید گرمی اور لُو سے لوگ بیماریوں میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں ’’مرے پر سو درے‘‘ کے مصداق عوام کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک عام فرد کے لیے زندگی نارمل انداز میں گزارنا کسی آزمائش سے کم ہرگز نہیں ہے۔ ایک طرف سندھ کو ہمیشہ سے اس کا دریائے پانی اس کے حصے کے مطابق نہیں ملا ہے۔ ’’ارسا‘‘ نامی قائم کردہ وفاقی ادارے نے اس حوالے سے کبھی منصفانہ کردار ادا نہیں کیا اور ہمیشہ سندھ کے ساتھ زیادتی روا رکھی جاتی رہی ہے جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ حصے سے بھی کم مقدار میں ملنے والا پانی کمزور ہاریوں کو بہ قدر ضرورت نہیں مل پاتا اور اوپر ذکر کیا جاچکا یہ کہ کس طرح ظالمانہ انداز میں بااثر سیاسی شخصیت غریب ہاریوں کے پانی پر بھی ڈاکا ڈالنے سے باز نہیں آتے۔ زمین کے آخری سرے (Tail) کے کاشت کار تو ہمیشہ ہی سے پانی کی عدم دستیابی کے خلاف ہر سال احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن انہیں بدلے میں ہمیشہ ہی ’’کون سنتا ہے فغانِ درویش‘‘ کی سی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سندھ میں پانی کی قلت کی وجہ سے زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ گندم کی فصل کے بعد اگر اب دیگر فصلوں خصوصاً کپاس کی فصل کو بھی پانی نہ ملا تو اس کا اثر ہماری ملکی معیشت پر بھی بے حد منفی مرتب ہوگا۔ سبھی جانتے ہیں کہ کپاس ایک نقد اور فصل (cash crop) ہے، جسے برامد کرکے ہمیں زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر مزید بارش نہ ہوئیں اور سندھ کو اس کے حصے کا مطلوبہ پانی نہ ملا تو صورت حال ناگفتہ بہ ہوسکتی ہے۔ شنید ہے کہ حکومت سندھ نے نارا کینال سے پانی کو چوری کرنے سے روکنے کے لیے رینجرز کو متعین کردیا ہے تو پھر محکمہ ٔ آبپاشی سندھ اور محکمہ ٔ پولیس آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ خطے کے گرم ترین شہر جیکب آباد کے عوام کو صاف اور میٹھا پانی فراہم کرنے کے لیے سابق ضلعی ناظمہ جیکب آباد (والدہ محمد میاں سومرو سابق نگراں وزیراعظم بیگم سعیدہ سومرو نے کروڑوں روپے کے صدقے سے جو ایک شاندار اور بے مثال اسکیم شروع کی تھی بعد میں آنے والے پی پی حکومت کے ذمے داران اور انتظامیہ نے جس سنگ دلی سے ناکامی سے دوچار کیا وہ ایک درد بھری کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔ بس رہے نام اللہ کا۔