عوام بھی دوسروں کا بوجھ نہ اٹھائیں

426

ملک میں بھان متی کا کنبہ یا جوڑ توڑ کر حکومتیں بنانے کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلے۔ جس طرح عمران خان کی حکومت پورے چار سال رسے پر چلنے کا خطرناک عمل کرتے گزر گئی اسی طرح اب پی ڈی ایم کی حکومت بنوائی گئی ہے۔ ایک دوسرے کے ازلی مخالف بھی ایک حکومت میں ہیں اور دل اندر سے پھٹے ہوئے ہیں اس کے نتیجے میں انتشار لازمی ہے۔ چناں چہ پٹرولیم پر سبسڈی ختم کرنے کے بڑے فیصلے پر عمل کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ پٹرول پر سبسڈی واپس لینے سے حکومت کو مزید دھچکا لگے گا اس کے سیاسی اثرات حکومت کے خلاف جائیں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے نہایت گھٹیا زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ بے شرم عمران خان نے پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے بجائے کم کردیں۔ معیشت کا بھٹا بٹھادیا۔ انتہائی غلط شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ نئی حکومت نے پاکستان کے مفاد والی شرائط پر کوئی معاہدہ کرلیا ہے۔ ان باتوں سے دو اہم پہلو سامنے آرہے ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت پی ڈی ایم یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی ہو یا پی ٹی آئی اور ق لیگ کی آئی ایم ایف کے درپر سجدہ کرنے پر ہی متفق ہیں۔ اچھی شرائط اور بری شرائط کی باتیں پاکستان میں سیاست کے لیے ہیں۔ اگر شہباز شریف نے کہا تھا کہ بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا تو انہیں بھکاری کہا گیا لیکن چار سال تک خود بھی بھکاری بن کر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدے کرتے رہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ چوں کہ موجودہ حکومت کی میعاد صرف ڈیڑھ سال ہے اس لیے ان میں پھوٹ بھی جلد ڈالی گئی ہے۔ اسباب تو موجود ہی ہوتے ہیں اور وہ بھی ایسا اتحاد جس میں چالیس چالیس سال ایک دوسرے کی مخالفت کا ریکارڈ موجود ہے، ایسیمیں متفقہ اور مستحکم حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رانا ثنا اللہ نے جو کہا اس کے ذمے دار وہی ہیں لیکن وہ جس چیز کو بے شرمی کہہ رہے ہیں وہ تو عمران خان کی سیاسی چال تھی۔ پی ٹی آئی نے پٹرول کی قیمت کم اسی لیے کی تھی کہ اسے اپنی شکست صاف نظر آرہی تھی اس لیے اس نے یہ چال چلی کہ کچھ دن میں حکومت جائے گی اور نئی حکومت کو آتے ہی آئی ایم ایف کے چنگل میں جانا ہوگا۔ رانا ثنا اللہ اسے انتہائی غلط شرائط کہہ رہے تھے حالاں کہ قرضہ لینے والوں کی شرائط نہیں ہوا کرتیں یہ آئی ایم ایف کا قرضہ ہے شرائط بھی اس کی ہوتی ہیں اور عمل بھی ہمیں کرنا پڑتا ہے۔ انتخاب کا حق بھکاری کا نہیں ہوتا، یہ جو اعداد و شمار گنوائے جارہے ہیں کہ ہمارے 37 میں سے صرف 13 وزیر ہیں۔ اگر پی پی اور جے یو آئی سبسڈی ختم کرنے کے حق میں نہیں تو ہمارا بھی یہی فیصلہ ہے۔ رانا صاحب فیصلہ وہ کریں جو صحیح ہو۔ اکثریت کچھ نہیں ہوا کرتی، جہاں تک تنہابوجھ نہ اٹھانے کی بات ہے تو ان کو شاید معلوم نہ ہو کہ قرآن نے بھی وعید سنادی ہے کہ آخرت میں کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور حکومت کا بوجھ تو ایسا ہے کہ حکمرانوں کو دنیا میں بھی اس کا بوجھ خود ہی اٹھانا ہے اور آخرت میں بھی۔ یہ بات انہیں سوچنی ہوگی۔ اصل خرابی وہی ہے کہ جس اسٹیبلشمنٹ کو آج عمران خان برا بھلا کہہ رہے ہیں اس نے ان کو اسی طریقے سے اقتدار میں لا بٹھایا تھا اور جس طریقے سے نکالا اسی طرح سب کو نکالتے ہیں، کبھی تحریک عدم اعتماد کبھی عوامی تحریک۔ بوجھ تو اسے بھی اپنے فیصلوں کا اٹھانا ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ملک کیوں تباہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو استعمال کیا، یہ کام اب بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے ہمیشہ آئین کو تابع کرنے کی کوشش کی۔ مافیاز نے سیاست کو یرغمال بنالیا اور سیاست دشمنی میں تبدیل کردی گئی۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ گئی۔ یہ لوگ عمران خان کو اور عمران خان پچھلی حکومتوں کو مہنگائی کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں، لیکن یہ سب اس کے یکساں ذمے دار ہیں۔ ان میں سے کوئی آئی ایم ایف کو چھوڑنے کو تیار نہیں بلکہ اس کی ہمت ہی نہیں کرتا۔ یعنی یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اگر قوم کو ان سے جان چھڑانی ہے تو اس کے پاس متبادل موجود ہے، تھوڑی ہمت اسے بھی کرنی ہوگی۔ ہر الیکشن میں لوگ کسی سیاسی شہید کی قبر پر دھمال ڈالتے ہیں پھر اسے سر پر بٹھالیتے ہیں اور پانچ سال یا چار سال بعد روتے نظر آتے ہیں کہ مہنگائی ہوگئی ہے۔ مہنگائی کا سبب یہی اسٹیبلشمنٹ اس کی پروردہ سیاسی جماعتیں ہیں۔ مہنگائی تو عالمی سطح پر ہوئی ہے لیکن اپنے عوام کو ریلیف دینا تو حکومتوں کا کام ہوتا ہے۔ یہ کیا کہ عوام پر ہی سارا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ عوام بھی اب دوسروں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیں۔ ان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔