سیاسی بیانات اور فوج کے تیور

595

پاکستان میں سیاسی حالات جس انداز میں خرابی کی طرف جارہے ہیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ سب کسی خاص منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ عمران خان کا منصب سے ہٹایا جانا۔ امریکی سازش کا بیانیہ۔ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت سازی۔ پی ٹی آئی کے گورنرز اور صدر کا اور اسپیکر کا استعفوں سے انکار یا کشمکش کے بعد منصب چھوڑنا۔ ارکان اسمبلی کا اجتماعی استعفا اور اب عمران خان کا نئے الیکشن پر زور کون کب کیا کرے گا اس کو اس کے حصے کا اسکرپٹ ملا ہوا ہے۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں سب سے زیادہ بدنام سیاست اور سیاسی جماعتیں ہو رہی ہیں افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو لوگ سیاستدان کے طور پر نظر آرہے ہیں یا سیاسی رہنما کہلاتے ہیں وہ دراصل سیاسی چولا پہن کر کوئی اور کام کر رہے ہیں۔ بیان بازی میں یہ میراثی بھانڈ سے بھی زیادہ گئے گزرے بن گئے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ جتنی اچھی جگت مارو گے اتنے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے اندر پاک فوج کے ترجمان کو پھر یہ تنبیہ کرنا پڑی کہ سیاسی قیادت فوج سے متعلق متنازع بیانات سے اجتناب کرے۔ کورکمانڈر پشاور کے حوالے سے سینئر سیاستدانوں کے بیانات انتہائی نامناسب ہیں۔ ایسے بیانات فوج کے مورال پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ ایک عرصے سے تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں بار بار درخواست کر رہے ہیں کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ سیاسی گفتگو کا حصہ نہ بنائیں۔ فوجی ترجمان کی بات بالکل مناسب ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فوج کا سیاست میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ سیاست سے دوری کا فیصلہ ایک فرد کا نہیں پورے ادارے کا ہے۔ 74 سال سے عوام اور سیاستدانوں کا یہی مطالبہ تھا۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ فوج سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتی رہی ہے اور مداخلت بھی کرتی رہی ہے اس سے اچھی بات یہ ہے کہ فوج نے سیاست سے دور رہنے کا باقاعدہ فیصلہ کر لیا ہے۔ اللہ انہیں اس فیصلے پر عمل کرنے کی ہمت دے۔ بہرحال جو کام پاکستانی سیاست میں برسہا برس ہوا ہے اب اس سے الگ ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ جس قسم کے سیاستدان نامی لوگ تیار کر کے قوم کو دیے گئے ان سے ایسے ہی غیر ذمے دارانہ بیانات کی توقع تھی۔ بہرحال اس میں کچھ وقت لگے گا۔ ایک سوال پھر بھی اپنی جگہ ہے کہ کورکمانڈر پشاور یا آئی ایس آئی چیف اور آرمی چیف کے تقرر کے بارے میں بیانات تمام سیاستدان کیوں دے رہے ہیں اس کام کا ایک فورم ہوتا ہے وہیں اس پر بات ہونی چاہیے اس سے اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ یہ سیاستدان اپنی لڑائی نہیں لڑ رہے کسی اور کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جیسا کہ بلاول زرداری نے کہہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد سے ایک رات قبل مارشل لا کی دھمکی دی گئی تھی۔ حکومت نے وزیر کے ذریعے مجھ تک یہ پیغام پہنچایا اگر بلاول یہ بات کہہ رہے ہیں اور قومی اسمبلی میں کہہ رہے ہیں تو ان سے ضرور پوچھا جائے کہ کس نے یہ دھمکی دی تھی۔ یقینا کسی نہ کسی کے اشارے یا اجازت سے ایسی دھمکی دی جا سکتی ہے کسی عام وزیر کی مجال تو نہیں کہ مارشل لا جیسے بڑے اقدام کی دھمکی ازخود دے ڈالے۔ اس طرح مریم نواز کا ایک بے سروپا قسم کا بیان سامنے آیا ہے جس پر ان کی گرفت تو ہونا چاہیے کہ پاک فوج کا سربراہ بے داغ اور اچھی شہرت کا حامل ہونا چاہیے۔ وہ یہ بھی بتا دیتیں کہ سیاسی جماعت اور ملک کے سربراہ کو بھی بے داغ اور اچھی شہرت کا حامل ہونا چاہیے یا نہیں اور کیا موجودہ سیاست دانوں اور حکمرانوں میں کوئی بے داغ اور اچھی شہرت کا حامل ہے۔ وہ پہلے سیاستدانوں اور حکمرانوں میں ایسے لوگوں کو آگے لائیں۔ اس ساری بحث اور پاک فوج کے ترجمان کے انداز بیان سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ فوج حکومت سے بالاتر ادارہ ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اب تک ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاستدان ہی اقتدار میں آتے رہے ہیں اس لیے ان کو وارننگ دینا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہی تو ہے کہ ترجمان کے بیان سے تو خطرناک نتائج یا عزائم کی بو بھی آرہی ہے۔ اس کو روکنے کا درست طریقہ اور راستہ سیاستدانوں کے پاس ہے۔ وہ اپنے اختلافات کو سڑکوں اور جلسوں میں نہ لائیں۔ قومی اہمیت کے معاملات سیاسی بیانات کے ذریعے حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے گہری سوچ بچار اور سنجیدگی درکار ہوتی ہے۔ اب اس سطح کے سیاستدان نہیں جو شدید سیاسی مخالفت کے باوجود ملک کو 73ء کا دستور دے گئے۔ قادیانیوں کوکافر قرار دینے کے مسئلے پر نہایت سنجیدہ بحث سے گزر کر فیصلہ کیا۔ شراب حرام تسلیم کر کے اس پر قانوناً پابندی لگائی جو آج تک قانوناً ممنوع ہے۔ اتنے بڑے کام ان ہی سیاستدان نے کیے جن کی اولادیں آج نہایت نچلی سطح کی اور غیر ذمے دارانہ سیاست کر رہی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اگر ادارے پی ٹی آئی کا سہارا بنیں تو سب ٹھیک نہ بنیں تو تنقید۔ یہ قابل غور بات ہے۔ پاک فوج کے ترجمان بھی تمام سیاستدانوں کے بجائے ان سیاستدانوں کا نام لے کر تنبیہ کریں جو فوج اور اس کے سربراہ کے بارے میں متنازع بیانات دے رہے ہیں تا کہ اصل لوگ بھی سامنے آئیں اور بات بھی واضح ہو سکے۔ قوم کے سوچنے کے لیے بھی ایک اہم بات ہے اور وہ یہ کہ وہ کب اچھے اور برے، کھوٹے اور کھرے میں تمیز سیکھے گی۔