بہترین خطاکار

انسان خیر وشر کا مجموعہ ہے، یہ نیکیوں پر قادر ہے، لیکن برائیوں سے عاجز نہیں، نہ فرشتہ ہے کہ برائی کا خیال تک دل میں نہ آئے اور نہ شیطان ہے کہ ضلالت وگمراہی سے کبھی دل خالی ہی نہ ہو، اس لیے اسے اس ’’امتحان گاہ‘‘ میں رکھا گیا ہے کہ دیکھا جائے کہ اس کی نیکیاں برائیوں پر فتح پاتی ہیں یا برائیاں نیکیوں پر غالب آتی ہیں، انبیاء کے سوا کوئی انسان نہیں جو غلطی اور خطا سے یکسر محفوظ ہو، گویا غلطی انسان کی سرشت میں ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان فرشتہ بن جائے۔ انبیاء کے بعد سب سے کامل انسان وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو انبیاء کی رفاقت اور نصرت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، لیکن اس مقام ومرتبہ کے باوجود بعض اوقات پیغمبروں کے اصحاب سے بھی غلطیاں صادر ہوئی ہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان کو فوراً ہی اپنے گناہ پر ندامت اور پشیمانی ہوتی ہے اور اس طرح یہی نہیں کہ ا ن کی یہ ندامت اس گناہ کی تلافی کا سامان بن جاتی ہے، بلکہ ان کا اس طرح گناہ کرنا اور پھر گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی جلالت شان کے مطابق پشیمان ہونا بجائے خود امت کے لیے اسوہ قرار پاتا ہے۔ آپؐ نے اسی حقیقت کو اس طرح ارشاد فرمایا کہ ہر ابن آدم ضرور ہی خطا کرتا ہے، لیکن بہترین خطا کار وہ ہیں جو گناہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دروازۂ مغفرت پر اپنی ندامت کی پیشانی رکھ دیں اور توبہ کرلیں، خیر الخطائین التوابون۔ مخلوق کا مزاج یہ ہے کہ وہ انتقام لے کر خوش ہوتی ہے، اس سے اس کے جذبہ انا کی تسکین ہوتی ہے اور کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات پر رحمت کا غلبہ ہے اور وہ رحمان ورحیم اور غفور وکریم ہے، اسی لیے اسے گناہ گاروں اور کوتاہ کاروں کو معاف کر کے خوشی ہوتی ہے، انسان انتقام کے لیے بہانے ڈھونڈتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہانوں سے مغفرت کے فیصلے فرماتے ہیں، کسی نے حج کرلیا تو پھر پچھلی پوری زندگی کے گناہ معاف کردیے، عمرہ کر لیا تو ایک عمرے سے دوسرے عمرے کے درمیان کے گناہ معاف ہوگئے، بعض روزے ہیں کہ پورے صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہیں، نمازیں بھی جسم سے گناہوں کے میل کو صاف کرتی ہیں، صدقات بھی گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ چھوٹے چھوٹے عمل کی بنیاد پر انسان کے گناہ معاف ہوتے جائیں۔
قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کو ’’عفو‘‘ یعنی بہت معاف کرنے والا قرار دیا ہے، عربی زبان میں ’’عفو‘‘ کے اصل معنی مٹانے کے ہیں۔ (القاموس المحیط:1181) پس ’’عفو‘‘ کے معنی مٹا دینے والے کے ہوئے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن گناہوں کو معاف کرتے ہیں ان کو بالکل ہی مٹادیتے ہیں اور شاید نامۂ اعمال سے بھی محو فرمادیتے ہیں۔ یہ کتنی بڑی شان کریمی ہے! انسان کسی کو معاف بھی کردے تو وہ غلطی کو لوح قلب سے مٹانے کو تیار نہیں ہوتا، وہ وقتی طور پر جذبۂ انتقام کو دبالیتا ہے اور جب کبھی تعلقات میں نا ہمواری آئی تو پھر اس کو اس کا نامۂ اعمال دکھانے اور چھپے ہوئے واقعات کو منظر عام پر لانے کے لیے کمر کس لیتا ہے، سیاست کی دنیا میں تو اکثر اسکینڈل اسی طرح ظہور میں آتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں درگذر کا دامن اتنا وسیع ہے کہ جب اللہ کسی بات کو معاف فرماتے ہیں تو اس کو ریکارڈ سے ہی حذف کردیتے ہیں۔
توبہ کا تصور جہاں آخرت میں انسان کے لیے نافع ہے، وہیں دنیا میں بھی کچھ کم نافع نہیں۔ اگر ایک شخص کے اندر نا امیدی اور مایوسی پیدا ہوگی، جرم کا حوصلہ بڑھے گا اور جرم پیشہ اذہان سوچنے لگیں گے کہ جب دوزخ مقرر ہی ہوچکی ہے تو دنیا ہی کی لذت اٹھالی جائے اور جہاں ایک دفعہ جرم کا اتکاب ہوا، دس اور سہی، اس سے جرم کو بڑھا وا ملے گا اور سماج میں زندگی اجیرن ہوجائے گی، اس لیے توبہ کا تصور دنیا میں بھی ایک بڑی رحمت ہے اور اس سے سماج کا امن وآ شتی متعلق ہے۔
توبہ کے لیے اصل محرک اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا احساس ہے، انسان اپنے گناہ پر ندامت اور پشیمانی محسوس کرے، اپنے گناہوں کو یاد کر کے اس کا دل لرزنے لگے، خدا کے سامنے اس کے ہونٹ کپکپانے لگیں، آنکھوں کے آنسو دل کی بے چینی اور اضطراب کی گواہی دیں اور اس کا ضمیر گناہوں کے بوجھ تلے اپنے آپ کو دبا ہوا محسوس کرے، اس پشیمانی اور سچی ندامت کے بغیر محض زبان سے توبہ کے الفاظ کہہ دینا کافی نہیں۔ انسان پر اپنی قلبی کیفیت کے لحاظ سے گناہ کا کیا اثر مرتب ہوتا ہے… اس کو آپؐ نے ایک مثال سے واضح فرمایا کہ نیک اور سچا مسلمان جب کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کے سر پر پہاڑ جیسا بوجھ ہے اور جو شخص گناہوں کا عادی ہوجاتا ہے اسے گناہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مکھی ہے جو ناک پر بیٹھی ہوئی ہے، ذرا ہاتھ ہلایا اور اڑگئی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے، اگر توبہ کر لے تو دھل جاتا ہے اور توبہ نہ کرے تو جوں جوں گناہ کرتا جاتا ہے قلب پر دھبے بڑھتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے، اب انسان گناہ کرتا ہے اور اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے بے توفیقی سے بڑھ کر کوئی محرومی نہیں۔ جیسے دنیا میں بہت سے امراض ہیں، جن سے آدمی دو چار ہوتا ہے، لیکن سچ پوچھیے تو شاید ’’جنون‘‘ سے بڑھ کو کوئی مرض نہیں، اس لیے نہیں کہ اس میں تکلیف زیادہ ہوتی ہے، بلکہ اس لیے کہ اس میں مریض کو اپنے مریض ہونے کا احساس نہیں رہتا، وہ بیمار ہوتا ہے، لیکن اپنے آپ کو صحت مند تصور کرتا ہے، اس کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو علاج کی ضرورت سے بری سمجھتا ہے، اسی طرح توبہ سے بے توفیقی ایک ’’روحانی جنون‘‘ ہے کہ انسان گناہ میں مبتلا ہے، سر سے پاؤں تک گناہ میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن اپنے گناہگار ہونے کا کوئی احساس نہیں کرتا اور کبھی یہ خیال نہیں کرتا کہ خدا کی چوکھٹ پر ندامت اور شرمندگی کی پیشانی رکھے اور التجا کی زبان کھولے۔ اللہ نہ کرے کہ کوئی مسلمان ایسی محرومی اور بد بختی سے دو چار ہو۔