نام ونمود اور ریا کاری کی مذمت

388

انسان کی عبادت اور اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے، اگر نیت خالص ہے تو اعمال اللہ کے ہاں قبول ہوتے ہیں، اگر نیت میں کھوٹ ہے یا ریا کاری یا نام ونمود مقصود ہے تو ایسے اعمال بجائے قبولیت کے انسان کے لیے موجب ِ وبال بنیں گے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں: پہلی شرط یہ ہے کہ یہ عمل خالص اللہ کے لیے ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرائط میں سے کوئی بھی ایک شرط نہ پائی گئی تو وہ عمل قبول نہیں ہوگا اور ریا کاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل اللہ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا اور ریا کاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹا عمل بھی اللہ کے ہاں پہاڑ کے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ریا کاری کی مذمت مختلف آیات میں بیان فرمائی ہے، چناں چہ ارشاد ہے:
’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے‘‘۔ (الکہف: 110)
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے او رجس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بدترین ساتھی ہے‘‘۔ (النساء :38)
ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے، نہ قیامت پر‘‘۔ (البقرۃ :264)
ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریا کار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اللہ سے اس کو اجر کی توقع نہیں، کیوں کہ جس سے توقع ہوگی، اْسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریا کار کو خالق کے بجائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں کہ اگر ایمان ہوتا تو ہر گز خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا۔ احادیث ِ مبارکہ میں بھی نبی اکرمؐ نے ریا کاری کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:
کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوف ناک ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: ہاں! کیوں نہیں؟ فرمایا: وہ شرکِ خفی ہے کہ آدمی کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔ (سنن ابن ماجہ)
دوسری حدیث میں ہے: ’’جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز، جس کی آمد میں کوئی شک نہیں، جمع کرے گا، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا: ’’جس نے اللہ کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر اللہ سے طلب کرے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے‘‘۔ (سنن الترمذی)
ایک اور مقام پر نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جو شخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کر دے گا‘‘۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کرے۔