مرگی کے مرض کی تشخیص ایک مشکل مرحلہ ہے، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

703

کراچی: ایپی لیپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر اور ملک کی معروف نیورو فزیشن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ مرگی کے مرض کی تشخیص ایک مشکل مرحلہ ہے اور یہ ایک غلط فہمی پیدا کرنے والی بیماری ہے جس میں نہ صرف مریض بلکہ بعض اوقات ڈاکٹر بھی اس بیماری کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور اس پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔وہ گزشتہ روز آذربائیجان کے دارالحکومت باکو پہنچیںجہاںمنعقد ہونے والی ’’پہلی پاک-آذربائیجان اعصابی ذیابیطس سمٹ‘‘ (1st Pak-Azerbaijan Neurodiabetic Summit)  جس میں مختلف شعبوں کے سینئر ڈاکٹر شرکت کر رہے ہیں ،ا دویات کے موضوع پر ایک کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ مرگی ایک قابل علاج مرض ہے اور دنیا کے دیگر ممالک نے اس بیماری کے علاج کے طریقوں اور ادویات میں بہت ترقی کی ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے شرکاء کو پاکستان میں مرگی کے علاج کے بارے میں دستیاب سہولیات کے بارے میں آگاہی دی ۔ انہوں نے اس بیماری کے علاج کے لیے نئی دوائیوں کے استعمال پر بھی بات کی، انہوں نے بتایا کہ نئی دوائیں کیسے متعارف کرائی جائیں اور انہیں پرانی دوائیوں کے ساتھ ملا کر کیسے استعمال کیا جائے۔ڈاکٹر فوزیہ نے پاکستان میں ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا۔ ذیابیطس کے مرض کی پیچیدگیوں اور دماغ کے سکڑنے اور نسیں کمزور ہونے کی وجہ سے ہاتھ پیر سُن ہونے اور ان کے اثرات کے نتیجے جسم کو پہنچنے والے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالی جسے نیوروپیتھی(Neuropathy) کہتے ہیں۔

ڈاکٹر محسن نے وٹامن بی کا ذیابیطس سے بے جان ہونے والی نسوں کے علاج پر روشنی ڈالی جبکہ ڈاکٹر شاہد محمود نے ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے طریقے اور اس بیماری کے علاج کے لیے نئی ادویات کے کردار کے بارے میں کانفرنس کے شرکاء کو بتایا۔دنیا بھر میں تقریباََ 50 ملین افراد مرگی کے مرض کا شکار ہیں، جو اس بیماری کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ عام اعصابی بیماریوں میں سے ایک بیماری بناتی ہے۔

مرگی کے شکار تقریباً 80% لوگ کم اور اوسط آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مرگی کی بیماری کے ساتھ زندگی گزارنے والے 70% تک لوگ اس بیماری سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اگر اس کا مناسب طریقے سے تشخیص اور علاج کیا جائے۔جس کے نتائج اس طرح ظاہر ہوئے ہیں کہ 1999 سے 2017 تک، دنیا میں مرگی کی شرح اموات میں 98.8 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ 1999 میں 5.83 فی ملین سے بڑھ کر 11.59 فی ملین (95% CI 88.2%–110.0%) ہو گیا، جب کہ دوسری وجوہات سے ہونے والی اموات کی شرح 16.47 فیصد کم ہوئی ہیں ۔