ہمیں سیاست میں نہیں گھسیٹیں

787

جب جب بھی ملک کا سیاسی ماحول کشیدگی کا شکار ہونے لگتا ہے اور افواجِ پاکستان کبھی حکومت کی یا کبھی اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی زد میں آتی ہیں تو ترجمان پاک فوج کی جانب سے یہ بیان سامنے آتا ہے کہ ’’افواجِ پاکستان کو سیاست میں مت گھسیٹا جائے‘‘۔ اس بیان کو جاری کرنے کا جو جواز بتایا جاتا ہے وہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ افواجِ پاکستان پر حرف زنی ریاست ِ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ ابھی چند دن قبل بھی ترجمان پاک فوج کی جانب سے ایسا ہی ایک بیان جاری ہوا جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ پاک فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے کیونکہ اگر پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا تو یہ ریاست کے لیے مناسب بات نہیں ہوگی۔ ترجمان پاک فوج کی جانب سے جاری حالیہ بیان نہایت دیانتدارانہ اور مبنی بر حقیقت ہے، سچ یہی ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی رویہ خواہ کسی بھی جانب سے ہو، کسی بھی ملک کی جغرافیائی یا نظریاتی سرحدوں کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بنتے ہی اس بات کا خدشہ سر اُٹھانے لگا تھا کہ آنے والے چند برسوں میں پاکستان کی سیاست میں اہم ترین کردار افواجِ پاکستان ہی کا ہوگا جس کا سب سے بڑا ثبوت بانی پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناحؒ کی بار بار وہ ہدایات تھیں جس میں وہ زور دے کر یہ فرماتے رہے کہ افواج پاکستان کا کام پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاطت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔
بے شک پاکستان کی افواج پر تنقید کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں لیکن اس کو کیا کیجیے کہ پاکستان میں چار مرتبہ مارشل لا لگایا جا چکا ہے جس کا دورانیہ 35 برس سے بھی زیادہ کا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مارشل لا سویلین حکمرانوں نے تو نہیں لگایا ہوگا۔ ایوب خان کے مارشل لا کے تسلسل میں جنرل یحییٰ کا مارشل لا آیا جس کے بعد پی پی پی کی شکل میں ایک عوامی حکومت کا دور شروع ہوا۔ لگتا تو یہی تھا کہ اب پاکستان میں جمہوریت کا یہ پودا آہستہ آہستہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ نہایت غیر جمہوری انداز میں اختتام پزیر ہوا۔ اور ملک ایک مرتبہ پھر سخت ترین مارشل لا کی زد میں آ گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یا تو پارلیمان کے ذریعے کوئی تبدیلی لائی جاتی یا پھر فوری الیکشن کرالیے جاتے لیکن ٹھانی یہ گئی کہ پہلے قوم اور قومی رہنماؤں کے دماغ درست کیے جائیں گے اس کے بعد انتخابات کر وائے جائیں گے۔ یہ فیصلہ بھی کسی سویلین حکومت کا تو نہیں تھا۔ اس مارشل لا کے بعد جتنی بھی جمہوری حکومتیں بنی، آئین ِ پاکستان کے مطابق بنا کسی جواز اور جمہوری تقاضوں کے توڑی جاتی رہیں جس کے پیچھے چھپے ہاتھ کسی سے پوشیدہ تو نہیں۔
کسی بھی ملک کی افواج خود مختار ادارہ نہیں ہوا کرتیں بلکہ وہ آئین و قانون کی پابند ہوتی ہیں۔ آئین ِ پاکستان میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ افواج ِ پاکستان کے سربراہ یعنی آرمی چیف کا تقرر حکومت ِ وقت ہی کرتی ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 1999 میں ادارے نے نہ صرف اس قسم کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا بلکہ آئین پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت ِ وقت کے خلاف بغاوت کرکے ایک ایسی حکومت کو جس کو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور اس کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی تحریک بھی موجود نہیں تھی، ہٹا دیا اور پاکستان میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا لگا دیا گیا۔
پرویز مشرف کے بعد بھی جو حکومتیں بنیں ان کے سر براہان اپنی اپنی آئینی مدتیں پوری نہ کر سکے اور سب جانتے ہیں کہ ایسا کرنے میں واضح کردار کن ہاتھوں کا رہا تھا۔ پاکستان میں پہلی بار کوئی جمہوری حکومت خالص جمہوری طریقے سے ہٹائی گئی وہ پی ٹی آئی کی تھی۔ حکومت کے خلاف باقاعدہ تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو کامیابی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ پاکستان کے تمام اداروں، بشمول افواج پاکستان کا بھر پور تعاون حاصل رہا۔ یہ بات کوئی ہوائی نہیں کیونکہ ترجمان پاک فوج از خود کبھی 6 ماہ مانگا کرتے اور کبھی کسی اور انداز میں حکومت کی پشت پر کھڑے نظر آتے۔ اب بھی عالم یہ ہے کہ سابقہ حکمرانوں نے آئین کی وہ کون سی شق ہے جس کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں نہ کی ہوں لیکن ان کے لیڈر اور کارکنان پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں پھر بھی ان کے خلاف ملک کے سارے ادارے اور انتظانیہ اندھی، بہری اور گونگی بنی ہوئی دکھائی دے تو کیا ایسا نہیں لکھتا جیسے سارا اسکرپٹ کسی ایک ہی ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔
ماضی و حال کے سارے تجزیے، لگائے جانے والے مارشل لاز اور سول حکومتوں کا ’’توچل میں آیا‘‘ والا حال دیکھ کر اگر کوئی سیاستدان، تجزیہ نگار، سیاسی پارٹی، حکومت یا اپوزیشن اس شک کا اظہار کرے کہ پاکستان میں اب تک ہونے والے سیاسی کھیلوں میں پاکستان کے طاقتور ترین ادارے کا ہاتھ ہے تو کیا یہ بہت غیر حقیقی بات شمار ہوگی؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان پر تنقید سے ان کی ساکھ بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے جو کسی طور ریاست کے مفاد میں نہیں لیکن کیا ملک میں آنے والی مارشل لائی حکومتیں، کبھی کسی کی پشت پناہیاں، کبھی سول حکومتوں سے بغاوتیں اور کبھی کسی کے لیے پارٹی بن جانا جیسے اقدامات کے بعد یہ بات اوپری سی نہیں لگتی کہ کہا جائے کہ خدا کے لیے ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔