عمران خان اور پارلیمانی جمہوری نظام

528

سابق وزیراعظم عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہماری حکومت کو ہٹانا ہی مقصود تھا تو ہم سے بہتر لوگوں کو آگے لاتے۔ یہ کیا کہ پھر چوروں، ڈاکوئوں کو لا کر بٹھادیا۔ بظاہر عمران خان کی یہ بات بہت وزنی محسوس ہوتی ہے اور عوام کو اپیل کرتی ہے۔ کیوں کہ وہ بہتر تبدیلی کے حق میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک بہتری کی طرف پیش قدمی کرے نا کہ شیطانی چکر میں ہی گھومتا رہے اور ہر تبدیلی ان کی مایوسی میں اضافہ کرتی چلی جائے۔ بلاشبہ عمران حکومت کے خاتمے اور موجودہ حکومت کے آنے سے عوام میں مایوسی اور بددلی پیدا ہوئی ہے کیوں کہ یہ تبدیلی بہتری کے بجائے مزید خرابی کی نشاندہی کررہی ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یقینا یہ ایک مایوس کن صورت حال ہے لیکن موجودہ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو ہٹانا مقصود تھا تو ان سے بہتر لوگوںکو آگے لایا جائے۔ تو درحقیقت وہ موجودہ جمہوری نظام کو لپیٹنے اور اس کی جگہ آمرانہ فیصلہ مسلط کرنے کی بات کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ جس ہئیت مقتدرہ کے پاس اقتدار میں ردوبدل کا اختیار ہے وہ کسی مینڈیٹ کے بغیر موجودہ جمہوری نظام کو نظرانداز کرکے بہتر اور اُجلے کردار کے باصلاحیت افراد کو تخت اقتدار پر بٹھادے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ ہئیت مقتدرہ چاہے بھی تو یہ کام نہیں کرسکتی۔ اسے ہرحال میں موجودہ جمہوری نظام کو تحفظ دینا اور سسٹم میں رہتے ہوئے اپنے پسندیدہ افراد کے لیے راستہ نکالنا ہے جیسا کہ اس نے 2018ء میں عمران خان کے لیے کیا۔ وہ اپنی عوامی مقبولیت کی بنیاد پر اقتدار میں نہیں آسکتے تھے۔ ان کے لیے بیلٹ باکس کے ذریعے راستہ ہموار کیا گیا اور جو کسر رہ گئی تھی وہ چھوٹی جماعتوں کے ذریعے پوری کی گئی۔ عمران خان خوب جانتے ہیں کہ انہیں انتخابات کے جمہوری راستے سے اقتدار میں لانے کا کارنامہ ہئیت مقتدرہ نے انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی 2 سال تک یہ بیانیہ خوب پھولتا پھلتا رہا کہ حکومت اور ہئیت مقتدرہ دونوں ایک پیج پر ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ بیانیہ کمزور ہوتا گیا اور عمران حکومت مشکلات میں پھنستی چلی گئی۔

آپ بے شک اسے امریکی سازش قرار دیں لیکن جو کچھ ہوا وہ جمہوری عمل کا حصہ تھا۔ جن ملکوں میں بھی جمہوری پارلیمانی نظام قائم ہے وہاں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو معمول کا درجہ حاصل ہے اور پارلیمنٹ میں رائے شماری کے ذریعے حکومت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ اسی جمہوری پارلیمانی نظام کی بیساکھی سے اقتدار میں آئے تھے۔ اب جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار سے بے دخل ہوئے ہیں تو اسے تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ آپ نے بحیثیت جماعت قومی اسمبلی سے استعفا دے دیا ہے اور جو لڑائی آپ کو اسمبلی میں لڑنی چاہیے تھی اسے سڑکوں پر لے آئے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین سمیت ملک کے تمام اداروں کو رگید رہے ہیں۔ ان میں وہ ادارے بھی شامل ہیں جو ماضی میں آپ کی پشت پر تھے بعد میں ’’نیوٹرل‘‘ ہوگئے۔ ان کا نیوٹرل ہونا آپ کو بہت بُرا لگا اور آپ ان پر طنز کے تیر برسانے لگے۔ یہ حقیقت بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ آپ اقتدار میں آئے تو تھے انتخابات کے راستے، لیکن انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کی سپریمیسی کو آپ نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ آپ نے قائدایوان کی حیثیت سے اسمبلی کی کارروائی میں بہت کم دلچسپی لی۔ آپ نے اسمبلی میں آنا گوارا نہ کیا اور اسمبلی میں مثبت قانون سازی کے بجائے ایوانِ صدر میں آرڈی نینس کی فیکٹری لگالی اور وہاں سے دھڑا دھڑ آرڈی نینس جاری ہوتے رہے۔ اب اقتدار سے سبکدوش ہونے کے بعد دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ آپ اس جمہوری نظام سے جڑے رہتے، آپ کی جماعت اسمبلی میں سب سے بڑی پارلیمانی قوت تھی، آپ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنا وزن رکھتے تھے، آپ کے تعاون کے بغیر اسمبلی میں کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی تھی، آپ ہر اُس قانون کو منظور ہونے سے روک سکتے تھے جس کا مقصد برسراقتدار گروہ کی کرپشن پر پردہ ڈالنا اور اسے کلین چٹ دینا ہوتا۔ آپ صاف اور شفاف انتخابات کے لیے اسمبلی سے موثر اور مفید انتخابی اصلاحات منظور کرواسکتے تھے۔ غرض اسمبلی آپ کا بیس کیمپ ثابت ہوتی، جہاں بیٹھ کر آپ اپنے سیاسی حریفوں کا ناطقہ بند کرسکتے تھے، لیکن افسوس آپ نے یہ محاذ خالی چھوڑ دیا، اپنی تمام چیک پوسٹیں خالی کردیں اور ڈھول بجاتے ہوئے سڑک پر آگئے۔ بے شک آپ بڑے بڑے جلسے کررہے ہیں، آپ نے اسلام آباد میں بیس لاکھ افراد جمع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا یہ بیس لاکھ افراد وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کرکے آپ کو تخت اقتدار پر بٹھادیں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا، آپ کو اقتدار میں واپس آنے کے لیے انتخابات کے عمل سے گزرنا پڑے گا اور موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام کی افادیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مزاج اس جمہوری نظام سے میل نہیں کھاتا۔ آپ احتجاجی سیاست کا علم اُٹھا کر ملک کو انتشار اور افراتفری کے راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس احتجاج سے خائف ہو کر بالادست طاقتیں اقتدار طشتری میں رکھ کر آپ کو پیش کردیں گی؟ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ آپ اس احتجاجی سیاست کے ذریعے خود کو بندگلی میں محصور کررہے ہیں جہاں سے نکلنے کا آپ کو کوئی راستہ نہیں ملے گا۔