خطرے کے نشان کی جانب بڑھتی ہوئی معیشت

446

رضا باقر کی ریٹائرمنٹ کے بعد مرتضیٰ سید گورنر اسٹیٹ بینک کے عہدے پہ فائز ہو چکے ہیں۔ اس عجیب اور پیچیدہ صورتِ حال میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کراچی میں جو پریس کانفرنس کی تو اس میں واضح کیا کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے باعث قرضہ نہیں لے سکتے۔ ان کے مطابق پٹرول 245 روپے فی لیٹر ہونا چاہیے تھا۔ حکومت اس پر تیس روپے اور ڈیزل پر ستر روپے فی لیٹر نقصان برداشت کررہی ہے۔ دوسری جانب ملک میں سیاسی فضا کشیدہ ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت کو دبائو کا سامنا ہے۔ جبکہ عوام کو ریلیف ملنے کی اُمیدیں بھی دم توڑتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی حکومت معاشی محاذ پر جگہ جگہ لینڈ مائنز (بارودی سرنگیں) بچھا کر گئی ہے۔ نئی حکومت کے مطابق عمران خان نے ایک سو پچاس ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی پٹرول پردی، جو معاشی اعتبار سے بہت نقصان دہ ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت بُرے حال میں ہے لیکن یہ کہ وہ پوری کوشش کررہی ہے کہ اس میں بہتری لائی جائے، جبکہ ناقدین کا خیال ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری لانا اتنا آسان نہیں ہے۔ یوکرین کی جنگ، سپلائی چین میں خلل اور عالمی طلب میں بحالی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کو مزید تقویت ملی ہے۔ اشیا کی بین الاقوامی قیمتیں نہ صرف مہنگائی کو بلند رکھتی ہیں بلکہ یہ پاکستان کے بیرونی کھاتے اور اس وجہ سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی بوجھ ہیں۔

وزارت ِ خزانہ نے کہا ہے کہ اخراجات میں زیادہ سبسڈیز اور گرانٹس مالیاتی کھاتوں پر نمایاں بوجھ ڈال رہے ہیں۔ معاشی ماہرین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جوں جوں درآمدات بڑھ رہی ہیں، درآمدات کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ افراطِ زر بھی بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں شرح سود میں اضافہ ہوا ہے، اب اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ٹریژری بلز کی نیلامی نے واضح کردیا ہے کہ موجودہ شرح سود کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ سود میں اضافے سے معیشت سست روی کا شکار ہوگی۔ معاشی شرح نمو متاثر ہوگی، جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ اس کے علاوہ حکومت کو لیے گئے قرضوں پر زیادہ رقم سود کی مد میں ادا کرنا پڑے گی، نتیجتاً مشکلات میں گھری نئی حکومت کی جیب پر اخراجات کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ معاشی ماہرین کے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرنٹ اکائونٹ خسارہ، بلند مالیاتی خسارہ اور اقتصادی ترقی کے امکانات کو کم کرنے سمیت غیرمعدینہ دورانیے تک جاری رہنے والی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے امتزاج کے پیش نظر آنے والے مشکل دنوں کی پیش گوئی کی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی منظر نامے بدل رہے ہیں جو معاشی بحالی کے لیے مضمرات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افراطِ زر اور بیرونی شعبے کے دبائو سے معیشت میں مائیکرو اکنامک عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔ بین الاقوامی پیش رفت اور ملک میں مسلسل بلند مہنگائی کی شرح ملکی اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ سی پی آئی (کنزیومر پرائس انڈیکس) میں مجموعی طور پر اضافہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان ایسی اشیا خاص طور پر خام تیل، دالوں اور خوردنی تیل کا خالص درآمد کنندہ ہے جو بالآخر مقامی قیمتوں میں منتقل ہوتا ہے۔

پاکستان کے مجموعی سپلائی سائیڈ کو مضبوط بنانے سے اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اسے برآمدات کے لیے زیادہ پیداوار اور درآمد کی حوصلہ شکنی کا موقع دے گا۔ یہ امکانات بیرونی رکاوٹوں میں نرمی کریں گے جو تاریخی طور پر پاکستان کی معیشت پر بوجھ رہا ہے اور جس کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا رہا۔ گزشتہ پونے چار برس کے عرصے میں وزارتِ خزانہ میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں۔ مشیر اور وزیر بدلے تو سیکرٹری بھی تبدیل ہوتے رہے۔ ایف بی آر اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ذمے دار بھی بار بار بدلے گئے، کسی کو چین سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ شرح سود میں اضافے سے قرضوں کے بوجھ میں شدید اضافہ ہوا اور اب ایک بار پھر خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات بڑھیں، لیکن وہ بھی کرنٹ اکائونٹ کا توازن برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ برآمدات میں اضافہ ہو یا غیرملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں، اسی طرح زرمبادلہ کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ مالی سال 2022ء میں صنعتی نمو میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے، کرنسی میں گراوٹ، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نظر آرہا ہے جبکہ زراعت کا شعبہ جی ڈی پی بڑھانے کے لیے مثبت اشارے دے رہا ہے۔ افراطِ زر کی شرح مالی سال 2022ء میں 11 فی صد تک پہنچنے کی توقع ہے، تیل اور گیس

کی بڑھتی قیمتیں افراطِ زر پر دبائو بڑھائیں گی۔ پاکستان میں صنعتیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ جب تک ہم آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑاتے ہمارے لیے یہ مسائل رہیں گے۔

گزشتہ کچھ برسوں میں ہماری درآمدات بہت بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے معیشت پر بہت بوجھ ہے۔ ہمیں غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگانی چاہیے۔ آج بھی ہمارا پیسہ درآمد کردہ مکھن، چاکلیٹ، کار، موبائل فونز، کتے اور بلیوں کے کھانے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں پر خرچ ہورہا ہے۔ ان پر کم از کم ایک سال تک پابندی لگائی جائے تاکہ ہم زرمبادلہ کو بچا سکیں۔ دوسرا اہم چیلنج قرضوں کی واپسی ہے۔ حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہے کہ وہ مزید قرضے نہ لے، توازن ادائیگی قائم کرے تاکہ اس کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ جب قرضے زیادہ لیں گے تو یقینا اس پر سود بھی دینا پڑے گا جس سے مزید مسائل بڑھیں گے۔ ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کی گئی، لیکن اس کمی کی وجہ سے ہمارا درامدی بل تو بڑھا لیکن ہمارا برامدی بل نہیں بڑھ سکا۔ لہٰذا ہمیں روپے کی قیمت میں مزید کمی نہیں کرنی چاہیے، اس سے ہماری معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت کو ہر درآمد کردہ شے پر ٹیکس نہیں لگانا چاہیے بلکہ ایسے ٹیکس ٹارگٹڈ ہونے چاہئیں جو خام مال ہماری صنعتی پیداوار میں معاون ثابت ہوتا ہے، ان پر ٹیکس کم کیا جانا چاہیے تاکہ ہماری پیداواری لاگت کم ہو۔ حکومت نے ساری درآمدات پر ٹیکس لگائے جس کی وجہ سے خام مال کی قیمت بڑھی اور اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور معیشت کو نقصان پہنچا۔ موجودہ حکومت ایک مربوط حکمت ِ عملی تیار کرکے وہ معاشی و اقتصادی معاملات کو درست ضرور کر سکتی ہے۔