مسجد سے متعلق بعض اہم مسائل

310

س :1۔ اپنے گائوں کی مسجد کے لیے چندا ہمارے پاس جمع ہے۔ کیا ہم اس چندے کو دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کر سکتے ہیں؟
2: مسجد کے لیے ایمپلی فائر ہم نے اپنے پیسوں سے خریدا۔ لوگوں نے وعدے کے باوجود اْس کے لیے کوئی چندا نہیں دیا۔ کیا ہم اس ایمپلی فائر کو دوسری مسجد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟
3: ہماری مسجد جو میرے چچا نے تعمیر کی ہے اْس میں نمازی ہمارے ساتھ ہر وقت جھگڑتے رہتے ہیں۔ کیا ہم دوسری مسجد اپنے لیے بنا سکتے ہیں؟
4: مسجد کے امام صاحب کی خدمت کوئی نہیں کرتا۔ مجبوراً ہمیں اْن کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ کیا اِس کے باوجود ہم اْن کی خدمت کریں کہ وہ ہمارے مخالف ہیں؟ اْنھوں نے میرے والد کی توہین کی ہے اور ہر وقت فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں۔
جواب: 1: چندا جو کسی ایک مسجد کے لیے جمع کیا جائے وہ اْسی مسجد کی ملکیت ہے جو صرف اْس کی مرمت، اس کی ضروریات اور دیگر متعلقہ اْمور پر خرچ کیا جاتا ہے۔ شرعاً یہ اجازت نہیں کہ اس کو مطلق مسجد کا چندا سمجھ کر دوسری کسی مسجد کی تعمیر یا مرمت یا دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو جتنی رقم اْس میں سے دوسری جگہ خرچ کی ہے اس کی ذمے داری خرچ کرنے والے پر ہے اور وہ اْس رقم کی واپسی اور مسجد کے فنڈ میں جمع کرنے کا شرعاً پابند ہوگا۔
2: مسجد کے لیے جو ایمپلی فائر آپ نے خریدا اور کوئی دوسرا اْس کی قیمت ادا کرنے میں شریک نہیں ہوا تو وہ اْس وقت تک آپ کی ملکیت ہے جب تک آپ کے پاس رہے۔ لیکن اگر آپ نے اْسے مسجد میں اِس نیت سے ایک بار رکھ لیا کہ یہ اِس مسجد کے لیے ہے تو اس کے بعد آپ کو یہ حق حاصل نہیں رہا کہ آپ اْسے وہاں سے اٹھا کر کسی اور جگہ یا اپنے گھر میں لے جائیں۔ اس لیے کہ جو چیز ایک بار مسجد کو دی گئی ہو وہ اْسی کی ملکیت اور وقف ہوگئی۔ اب وقف مال اور مسجد کے مال پر کسی کا اختیار نہیں کہ وہ اْس کو وہاں سے ہٹائے یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرے یہاں تک کہ وہ بوسیدہ اور اذکار رفتہ ہو جائے۔ تب بھی مسجد سے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ہاں، اہل محلہ اور امام مسجد کی اجازت سے فروخت کر کے اْس کی قیمت اسی مسجد کے فنڈ میں دی جا سکتی ہے۔
3۔سب سے پہلے بھرپور انداز میں کوشش کرنی چاہیے کہ مسجد کے نمازی اور اہل محلہ آپس میں جھگڑے ختم کر کے بھائی بھائی بن جائیں۔ مسجد میں جمع ہونے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ آپس میں شیر وشکر ہوں، ایک دوسرے کی مدد کریں، غمی شادی میں شریک ہوں اور اْن میں اتحاد و یگانگت اور باہمی احترام کا جذبہ پختہ ہو۔ یہ افہام و تفہیم کے ذریعے عین ممکن ہے۔ احادیث میں صفوں کو سیدھا اور دْرست کرنے کا فلسفہ بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ ان کی درستی سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت پیدا ہو جاتی ہے۔
اولیت صلح و مصالحت کو دینی چاہیے۔ ضد اور اَنا کو اللہ اور اْمت محمدیؐ کی خاطر چھوڑ کر لوگوں سے حسن سلوک اور بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہیے کہ یہی انسانیت ہے۔ اسی میں کامیابی ہے۔ کسی تحریک کے کارکنوں کی کامیابی کے لیے یہی ضرورت ہے کہ مقصد کی خاطر وہ حْسن سلوک، عوام کی خدمت اور کسرِنفسی سے کام لیا کریں اور ہمیشہ دوسروں کی عزت کریں۔ اس طرح اسی مسجد میں ہی ایک خوش گوار ماحول پیدا ہو جائے گا اور پھر آپ الگ مسجد بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔
خدانخواستہ اگر حالات اِس قدر بگڑ گئے ہوں کہ مصالحت کا امکان باقی نہ رہا ہو اور ایک مسجد میں جمع ہونے سے نمازیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہو اور مصالحتی کوشش کے باوجود بہتری نظر نہ آرہی ہو تو فتنے سے بچنے کے لیے اور جھگڑے کے سدباب کے لیے الگ مسجد بنا سکتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں مسجد کسی کی ملکیت نہیں ہوتی، چاہے ایک شخص یا ایک خاندان اپنی زمین پر اپنے پیسے سے تعمیر کرے۔ وہ عام مسلمانوں کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔ اس لیے دوسری مسجد تعمیر کرنے کے بعد مصالحتی کوشش دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔ خود تھوڑا جھک کر دوسروں کو راضی کریں۔ اسی میں بڑائی ہے۔ یہی اصل جیت ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کا موجود ہونا مقصد اولین ہے اور فرقہ واریت و افراتفری سے ان کا شیرازئہ قومیت بکھر جاتا ہے۔
4۔امام مسجد کی خدمت اگر پہلے سے کررہے ہیں تو اب اْس میں اور اضافہ کیجیے تاکہ اْن کی تالیف قلب ہو جائے اور اْن کی رضا مندی اور خوشی مسجد میں خوش گوار ماحول پیدا کرنے کا باعث بنے اور اسی طرح سارا مسئلہ حل ہو جائے۔