غزوۂ احد (ماہِ شوال کا اہم غزوہ)

اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کو اپنے دفاع میں جنگ کرنا پڑی انہوں نے ہمیشہ ظلم وزیا دتی ‘ تشدد اور چنگیزت سے اجتناب برتا۔ اسلام میں پہلی جنگ 2 ہجری میں بدر کے مقام پر لڑی گئی اور اس جنگ میں کفار قریش کے 14 بڑے سردار مارے گئے تھے۔ مکہ میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ کفار کو معرکہ بدر میں مسلمانو ں کی قوت کا اندازہ ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے بدر کا انتقام لینے کے لیے اس کے کاروان تجارت کے زار منافع کو جنگ کے انتقام پر صرف کرنے کی رضا مندی دے دی۔ اس مرتبہ مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف کفار قریش کے ساتھ وہ جنگجو قبائل بھی شامل ہوگئے جو بدر میں شامل نہ ہو سکے تھے۔ یہ جنگجو قبائل کنانہ، خزیمہ، خزاعہ تھے۔ جو قریش کے حلیف تھے۔ یہ اس جنگ کی تیاری تھی جو شوال کے مہینے میں 3 ہجری کو احد کے مقا م پر لڑی گئی۔ اس جنگ میں عرب کے شعلہ بیان خطیبوں کو قریش نے انتقام کی آگ بڑکانے کے لیے بھیجا۔ وہ عورتیں جن کے باپ بھائی شوہر جنگ بدر میں قتل ہوئے تھے وہ بھی اس جنگ میں شریک ہو ئیں۔
سنیچر 11 شوال 3 ہجری کو علی الصباح تقریباّ تین میل چل کر سب محلوں سے بھرتی شدہ رضا کار لے کر ایک ہزار فوج کے ساتھ آپ جیل احد کی طرف بڑھے اور مغرب میں پھیلا ہوا ہے، ’مقام شوط‘ پر پہنچ کر عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو ساتھ الگ ہوگیا اور یہ مؤ قف اختیار کیا کہ محمد نے میری رائے نہیں مانی اس لیے میں اپنے آدمیوں کو بے فائدہ مروانا نہیں چاہتا‘‘۔ جبل عنمین کے دو رہائشی قبائل بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی عبد اللہ بن ابی کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ کرلیا مگر اولوالعزم صحابہؓ کی کوششوں سے اورآپ کی تسلی کہ ’’کیا بات ہے تمھارے لیے کافی نہیں کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمھاری مددکرے‘‘۔ اللہ نے ان کا اضطراب دور کر دیا۔ آپ سات سو آدمیوں کے ساتھ آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں اپنی فوج کواس طرح صف آراہ کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے پہلو میں دبائیں اور پیچھے جبل عینمین جواب جبل رماۃ کہلاتا ہے، اس دو گنہدی پہاڑی پر آپ نے پچاس افراد متعین فرمائے کہ تاکہ اگر دشمن کا دستہ وادی قناہ کے راستے سے حملہ آور ہونا چاہیے تو اسے تیروں کی بوچھاڑ سے روکا جا سکے۔ اسی وادی کے سر ے پر جہاں عینن واقع ہے، اس غیر محفوظ اور اہم مورچے کی حفاظت بہت ضروری تھی۔ جہاں سے دشمن کے حملے کا امکان تھا۔آپ نے عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیر انداز اس درّے پر متعین فرمائے اور سختی سے ہدایت فرمائی کہ ’’یہاں پہاڑ کی طرف ڈٹ جاؤ مجھے دشمنوں کے ان سواروں سے اندیشہ ہے جو غفلت دیکھ کر اس طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہوجائیں اس لیے جنگ میں فتح ہو یا شکست تم اپنی جکہ پر ڈٹے رہنا۔ صورت حال کچھ بھی ہو یہاں تک کہ تم دیکھو ہماری بوٹیاں گِدھ نوچ کرلے جارہے ہوں اور تم یہ سمجھو کہ تمھاری مدد کی ہمیں ضرورت ہے تب بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا تم پر صرف عقب سے آنے والوں کہ نگرانی فرض ہے‘‘۔
قریش کی فوج میں 3 ہزار جنگجو شامل تھے اس میں سات سو سپاہی زرہ پوش اور دو سو مسلح دستے بھی شامل تھے۔ قریشی فوج پوری طرح مسلح تھی۔ ان کے پاس جنگِ بدر کے سارے ہتھیار تھے۔ جنگ شروع ہوئی تو مکی فوج نے مبارزت کے لیے مدنی لشکر کو للکارا۔ طلحہ اس فوج کا علمبردار تھا۔ آپؐ نے سیدنا زبیرؓ کو اس کے مقابلے کے لیے منتخب فرمایا۔ زبیرؓ نے پہلے ہی وار میں طلحہ کا سر قلم کر دیا۔ طلحہ کے بھائی کو سیدنا حمزہؓ نے قتل کیا۔ اب مکی فوج کے علم ابو سعد بن ابو طلحہ کے ہاتھ آیا۔ سعد بن وقاصؓ نے نیزے کے وار سے ختم کردیا۔ ابو سفیان نے آٹھ علم بردار یکے بعد دیگر ے قتل ہوتے دیکھے تو بوکھلا کر عام حملے کا حکم دے دیا۔ مدنی فوج نے اپنی شجاعت اور بہادری سے سے مکی فوج کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ خالد بن ولید بائیں جانب مکی دستے کے کماندار تھے جونہی مکی فوج میں بھگدڑ مچی جبل رماۃ پر متعین تیر اندازوں نے مکی فوج کو بھاگتے دیکھا تو اپنے مقام سے ہٹ گئے۔ صرف نو دس افراد اپنے مقام پر جمے رہے۔
جنگ میں متعین مقام کو چھوڑ نے کی سزا موت بجا طور پر مقرر کی گئی ہے کیونکہ حکم عدولی اور بے ضابطگی میدانِ جنگ میں شکست کا باعث ہو تی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی حکم عدولی کی سزا بھی بہت سخت ملی۔ جب مکی دستہ شکست کھا کر بھاگ رہا تھا اور جبل رماۃ کے تیرانداز اپنی جگہ پر نہیں تھے، اس وقت خالد بن ولید نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے گھوڑے کی باگ موڑی۔ جبل رماۃ پر جو لوگ رہ گئے تھے ان کو اپنے گھوڑے کے سموں سے کچلتے ہوئے مدنی فوج پر پیچھے سے حملہ کردیا۔ وہ مکی فوج جو بدحواس ہو کر بھاگ رہی تھی واپس پلٹ آئی اور آنا فانا جنگ کا نقشہ پلٹ گیا۔ مدنی فوج اپنی ترتیب کھو بیٹھی۔ فاتح مفتوح اور مفتوح فاتح بن گئے۔ آپؐ نے فوج پر دونوں طرف سے حملہ ہوتے دیکھا تو اپنی سپاہ کو دوبارہ منظم کیا۔ آپؐ نے بلند آواز میں اپنی فوج کو پکار کر اپنے گرد ہونے کا حکم دیا۔ آپؐ کے 14 محاظ جن میں سات مہاجر اور سات انصار تھے۔ ہر وقت آپ کی ذات مبارکہ کی طرف تھے۔ آپؐ زخمی تھے اور دو دندانِ مبارک بھی شہید ہو چکے تھے۔ خود کی کڑیاں گوشت میں پیوست تھیں۔ اسی اثناء میں مسلمانوں کے علمبردار سیدنا معصبؓ جو آپؐ کے ہم شکل تھے قریش فوج نے ان کو شہید کردیا اور یہ خبر اڑادی کہ نبی اکرمؐ شہید ہوگئے۔ اس افواہ سے مسلمانوں میں بدحواسی اور مایوسی پھیل گئی۔
جبیر بن مطعم کے حبشی غلام نے سیدنا حمزہؓ کو شہید کردیا۔ حمزہؓ کی شہادت نے آپ کو بہت دل گرفتہ کردیا کیونکہ کہ حمزہؓ آپؐ کے حقیقی چچا تھے اور رضاعی بھائی بھی تھے۔ آپ کو ان سے بہت محبت تھی دشمن اپنا پورا زور صرف کر رہا تھا کہ کسی طرح نبی اکرمؐ تک پہنچ جائے۔ مگر جانثار صحابہ نے اپنی جانوں پر کھیل کر آپ کی حفاظت کی۔ آپ کو بچاتے ہوئے ابو طلحہؓ کی تمام انگلیاں شہید ہوگئیں۔ مگر کسی دشمن کو آپ نے قریب نے آنے دیا۔ ابو سفیان نے یہ تصدیق کرنے کے لیے رسول اکرمؐ زندہ ہیں یا نہیں، پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی کہ محمد (ص)! ابوبکر! عمر! کوئی زندہ ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ وہ حیات ہیں۔ آپ کی حیات کی خبر سے مسلمانوں میں تازہ جوش وخروش پیدا ہوگیا، اور ابو سفیان کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔