مسجد نبویؐ کی بے حرمتی… سیاسی تاریخ کا بدنما داغ

895

رمضان المبارک کی 27 ویں بابرکت شب میں مسجد نبوی میں جو شرمناک و افسوسناک سانحہ ہوا وہ ایک نہ مٹنے والا پاکستان سیاست کا بدنما داغ ہے اس واقعے پر ہر پاکستانی مسلمان شرمندہ ہے۔ ہماری تنگ نظری، ذاتی مخالفت و تعصب کی سیاست سے مسجد نبوی کے در و دیوار بھی محفوظ نہ رہ سکے اور سیاسی ہلڑ بازی، نعرہ بازی سے آلودہ ہوئے حالاں کہ یہ وہ پرامن و مقدس جگہ ہے جہاں اللہ کے فرشتے بھی اس کا ادب و تقدس ملحوظ رکھتے ہیں اور درود و سلام سے فضا معطر رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے آخری نبیؐ کے ادب و احترام پر قرآن پاک کی سورۃ حجرات نازل کی اور بارگاہِ رسالتؐ کے آداب مدینہ منورہ کے تقدس و احترام سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے ایمان والو، اپنی آواز کو پیغمبرؐ کی آواز سے اونچا نہ ہونے دو اور نہ اس کو اس طرح آواز دے کر پکارو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو‘ ایسا نہ ہو کہ تہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں احساس بھی نہ ہو‘‘۔ (سورۃ الحجرات: 3-1-48)
اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم سیاست کی کس انتہا پر ہیں۔ یہ دراصل ہمارے سیاستدانوں کی تربیت و اصلاح پر سوال پیدا ہوگیا ہے کہ وہ سیاست کو کس حد تک لے جانا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے وطن عزیز کی سیاست میں جو زہر گھولا جارہا ہے اس سے نہ صرف ملکی استحکام کو خطرہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے بلکہ ہماری اخلاقی اقدار و تہذیب کو بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پوری دنیا میں اس واقعے سے ہمارے ملک کی بدنامی و قومی اخلاق مجروح ہوا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ نعروں، نفرواستہزا، ذاتی کردار کو نشانہ بنانے، الزامات لگانے کی تاریخ ہے ہم تیزی سے سیاسی و اخلاقی پستی کی جانب جارہے ہیں ہمارا قومی جمود و بے حسی ہمیں تاریکی میں لے جارہی ہے جس سے صحیح و غلط کی تمیز کھوچکے ہیں۔ جذباتی نعروں نے اخلاقی حدود تار تار کر رکھی ہے یہی جذباتی سیاست و نعرہ بازی نے آج ہمیں جہالت کے اس اندھیروں میں پہنچادیا ہے جہاں مسجد نبوی بھی ہماری جہالت سے آلودہ ہوئے جس سے پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ دنیا کی نظروں میں ہمارے ہی بعض بدبختوں کے کردار سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ پوری پاکستانی قوم اس کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو کچھ مسجد نبوی میں ہوا وہ دربار رسالتؐ مآب کی صریحاً بے ادبی ہے۔ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کے دل دکھی ہیں وہاں کا تقدس پامال کرنا، نعرے بازی اور دھینگا مشتی ایسی قبیح حرکت ہے جسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ نیشنل رحمتہ اللعالمین اتھارٹی کے چیئرمین جناب ڈاکٹر انیس احمد نے کہا کہ اتھارٹی کے تمام اراکین مدینہ منورہ میں پیش آنے والے قبیح اور شدید افسوسناک واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان تمام افراد کو جو اس واقعے میں ملوث ہیں انہیں فوری طور پر اللہ کے حضور معافی مانگنا چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے، تمام مکاتب فکر کے علما کرام نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا جبکہ وزیر داخلہ نے بھی اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا اظہار کیا ہے۔ یہ ایسا گھنائونا سانحہ ہے جس پر پوری قوم ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے اور جرم ثابت ہونے پر ان کو تاحیات بلیک لسٹ کرے اور سخت سزا دے تا کہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ اس کے ساتھ ہمیں سیاست میں اصول و ضابطے متعین کرنا چاہیے اور ایک متفقہ قومی ضابطہ اخلاق تیار کرنا چاہیے جس پر ہر سیاسی رہنما و پارٹی سختی سے عملدرآمد کی پابند ہو۔ موجودہ سیاسی ماحول جاری رہا تو ایسے دیگر واقعات کو روکا نہیں جاسکے گا۔ یہ ماحول اچانک نہیں آگیا بلکہ یہ 1970ء سے سیاسی ہنگاموں میں ایسے ہی جذباتی مناظر تھے ہیں نفرت و تعصب کی سیاست نے ملک کے ایک حصہ کو ختم کیا، موجودہ سیاسی ماحول کو اگر درست نہ کیا گیا تو ملک خطرات میں گھر سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ پوری قوم ایسی سیاست و سیاستدانوں سے لاتعلقی کا اظہار کرے جو نفرت و تعصب کی آگ میں قوم کو جھونکنا چاہتے ہیں۔ ایسے سیاستدانوں پر پابندی عائد کی جائے جو نوجوانوں کو چند گمراہ کن نعروں و جذباتی سیاست میں ملوث کر رہے ہیں سیاسی ضابطہ اخلاق ازسرنو تربیت دے کر سختی سے نافذ کیا جائے۔