محنت کش تنظیموں کے عہدیدار سیاسی رموز کو سیاستدانوں سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں

283

کراچی(رپورٹ: قاضی سراج )پاکستان میں رائج نظام کو جمہوریت کہنا جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے یہاں اقتدار پر ایک مافیا مسلط ہے۔انگریزوں نے اپنی خدمت اور یہاں کے مظلوم اور محکوم عوام کو اپنی غلامی میں جکڑے رکھنے کے لیے جاگیردار طبقہ، ایک نو دولتیہ طبقہ پروان چڑھایا اور ایک قوم کو غلام رکھنے کے لیے ایک افسر شاہی کی تربیت کی اور اب یہی ٹرائیکا اس قوم پر مسلط ہے‘ محنت کشوں کی نمائندہ تنظیموں کے عہدیداران سیاست کے رموز کو عام پارلیمانی سیاسی قائدین سے بہتر سمجھتے ہیں کیوں کے مزدور قیادت کا براہ راست تعلق عام انسانوں سے ہے اور عام شہری کی ضروریات ان کی محرومیوں ان کو درپیش مسائل سے آگاہی کے سبب محنت کشوں کے لیڈر ہی عوام کے حقیقی نمائندہ بن سکتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں غریب مزدوروں کے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر غریب مزدور کو بھول جاتے ہیں لیکن اصل میں غربت سے نجات سے کی واحد راستہ سیاست ہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی ‘ سینئر مزدور رہنما لطیف خان یوسف زئی ‘ مزدور اتحاد لیبر یونین پی ایم ڈی سی شارگ ضلع ہرنائی کے صدر عنایت اللہ نے جسارت کے سوال کیا محنت کشوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ صدر شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ پاکستان میں رائج نظام کو جمہوریت کہنا جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے یہاں اقتدار پر ایک مافیا مسلط ہے۔انگریزوں نے اپنی خدمت اور یہاں کے مظلوم اور محکوم عوام کو اپنی غلامی میں جکڑے رکھنے کے لیے جاگیردار طبقہ، ایک نو دولتیہ طبقہ پروان چڑھایا اور ایک قوم کو غلام رکھنے کے لیے ایک افسر شاہی کی تربیت کی اور اب یہی ٹرائیکا اس قوم پر مسلط ہے۔ یہ سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دینا اور مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کو سیاسی عمل دور رکھنے اور انہی روز وشب پر راضی رکھنے کی ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزدور کسان جب تک سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے اور اس ٹرائیکا کے تسلط کو توڑنے کے اپنی ووٹ کی طاقت کو مجتمع کرکے اس کے ذریعے ایک دیانتدار قیادت جو کہ جماعت اسلامی کی صورت میں مزدوروں جیسا طرز زندگی اور معاش رکھتی ہے اور حقیقی معنوں میں ایک مزدور کسان پارٹی ہے اس کا بھرپور ساتھ دینے سے ہی مزدور کسان اور پسے ہوئے عوام کی عزت نفس کی حفاظت خوشحالی تعلیم، علاج چھت کی فراہمی کا راستہ نکلے گا۔ آج بھی حقیقی جمہوریت مزدوروں کے ہاں ہے ٹریڈ یونین اور باقاعدہ الیکشن جمہوریت کی نرسری ہے۔ مزدور لیڈرشپ کو دائیں بائیں اور سرخ وسفید کی سیاست سے نکل کر رائٹ اور رانگ یعنی صحیح اور غلط کی سیاست اپنانا ہوگی یہ مسلط نظام اسی لیے ٹریڈ یونین کی حوصلہ شکنی کرتا ہے کہ یہ ان کے لیے ایک مستقل چیلنج بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔مزدور کسان جب کسی جاگیرداروں ، سرمایہ داروں کے زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو مزدوروں، کسانوں اور ان کی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ سینئر مزدور رہنما لطیف خان یوسف زئی نے کہا کہ محنت کشوں کی نمائندہ تنظیموں کے عہدیداران سیاست کے رموز کو عام پارلیمانی سیاسی قائدین سے بہتر سمجھتے ہیں کیوں کے مزدور قیادت کا براہ راست تعلق عام انسانوں سے ہے اور عام شہری کی ضروریات ان کی محرومیوں ان کو درپیش مسائل سے آگاہی کے سبب محنت کشوں کے لیڈر ہی عوام کے حقیقی نمائندہ بن سکتے ہیں۔2002 میں میںنے پاکستان ورکرز موومنٹ سندھ کے صدر کی حیثیت سے بھر پور آواز بلند کی کی صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی میں مزدور لیڈرز کے لیے مخصوص سیٹ مختص کی جائیں تاکے مزدور لیڈر پارلیمانی سیاست کا حصہ بنیں اور اپنی صلاحیتوں سے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کریں ۔ میں نے پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے وزیروں کو بھی اس سلسلہ میں متعدد مرتبہ کہا لیکن انہوں نے سنی ان سنی کردی ۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بیروزگاری ، مزدور تنظیموں کے غیر فعال کردار، سرمایاداروں کی من مانیوں کو دیکھتے ہوے میں سمجھتا ہوں کہ مزدور رہنماؤں کو ملک گیر سطح پر ملکی سیاسی پلیٹ فارم سے عام پاکستانی کی آواز بنناچائیے اور اب وقت ہے کے عملی طور پرمنظم ہو کر متحد ہوکر میدان میں نکلنا چاہیے۔سیاسی پارٹیاں محنت کشوں کو سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کر کے اقتدار کے ایوانوں میں اپنی خرمستی میں مشغول ہوجاتی ہیں اور آئین پاکستان کی برائے نام پیروی کرتے ہوئے لیبر ونگ اور لیبر بیورو بنا کر بین الاقوامی طور پر آنکھوں میں دھول جھونک کر ثابت کرتی ہیں کہ ہم عام محنت کشوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مزدور اتحاد لیبر یونین پی ایم ڈی سی شارگ ضلع ہرنائی کے صدر عنایت اللہ نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں غریب مزدوروں کے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر غریب مزدور کو بھول جاتے ہیں لیکن اصل میں غربت سے نجات سے کی واحد راستہ سیاست ہی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ آج کل پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کا طرز عمل غلط ہے لیکن اس کا یہ مقصد کبھی بھی نہیں کہ سیاست ہی غلط ہے اگر کوئی غلط ہے تو وہ مزدور کسان اور غریب، جو ان سیاسی پار ٹیوں کو ووٹ دے کر بالا ایونوں تک پہنچا تے ہیں۔ہم نے آج تک مزدور کسان کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا نہیں کی، نہ ان غریبوں کی بیداری کے لیے ہر شہر کی سطح پر کوئی سیمینار منعقد نہیں کی تاکہ غریب مزدور کسان کو یہ معلوم ہوسکے کہ ان کی قوت اور طاقت کیا ہے غریب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو حکومت کے بالا ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمران ہیں وہ سب کے سب ان ہی کی ووٹوں کے بدولت ہیں۔ رہی بات سیاست کی سیاست غریبوں کی ضرورت ہے اسی سیاست کی بدولت وہ اس قابل بن سکتے ہیں کہ وہ اپنی بنیادی سیاسی حقوق کا مطالبہ کریں جس میں تعلیم روزگار صحت اور باقی تمام سیاسی اور انسانی حقوق شامل ہے۔سیاست پر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا قبضہ ہے جن کا ذمہ دار وہ سیاسی تنظیمیں ہیں جو انسانی حقوق کی کھوکھلے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن عمل میں کچھ نہیں کرتے۔