اسلام اور پاکستان

689

ان دیکھے خدا کا انکار تو اربوں انسان کرتے ہیں مگر آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کا انکار کوئی نہیں کرتا۔ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اتنے بددیانت ہیں کہ وہ آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کا بھی انکار کرتے ہیں۔ اسلام پاکستان کے آسمان پر چمکنے والے سورج کی طرح ہے۔ پاکستان اسلام سے ہے، اسلام کے بغیر پاکستان کا تصور محال ہے۔ مگر سیکولر اور لبرل دانش ور آئے دن اس بات کا انکار کرتے رہتے ہیں کہ اسلام پاکستان کی اساس ہے، عائشہ جلال کا تعلق سعادت حسن منٹو کے خانوادے سے ہے۔ ان کا شمار ممتاز سیکولر اور لبرل مورخین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہندو مسلم تقسیم کا برصغیر کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تقسیم انگریزوں کی پیدا کردہ ہے۔ عائشہ جلال کے بقول قائداعظم ابتدا میں پاکستان نہیں چاہتے تھے۔ عائشہ جلال کے مطابق ہندو فارسی یا Indo-Persian ہندوستان میں ہندو مسلم تقسیم کا وجود نہیں تھا۔ اس زمانے میں ہر چیز ’’میرٹ‘‘ پر ہوتی تھی۔ ہندو مسلم کی بنیاد پر نہیں۔ عائشہ جلال نے سب سے بڑا جھوٹ یہ بولا کہ پاکستان کے حوالے سے اسلام ہمارا تشخص تو تھا مگر عقیدہ نہیں تھا۔ عائشہ جلال کے مطابق مذہب فرد کا ’’ذاتی معاملہ‘‘ ہے۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 20 مارچ 2022ء)
تجزیہ کیا جائے تو عائشہ جلال کی یہ ساری باتیں غلط ہیں۔ بلاشبہ انگریزوں نے ہندو مسلم تقسیم کو بڑھایا مگر یہ تقسیم ہمیشہ سے موجود تھی۔ مسلمانوں کا خدا الگ تھا۔ مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ ہندو ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدائوں کو مانتے تھے۔ مسلمانوں کا رسول الگ تھا۔ مسلمان رسول اکرمؐ پر ایمان رکھتے تھے ہندو کرشن اور رام کو بھگوان کا اوتار سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن تھی۔ ہندوئوں کی آسمانی کتاب ویدوں اور گیتا پر مشتمل تھی۔ مسلمانوں کی عبادت گاہ مسجد کہلاتی تھی۔ ہندوئوں کی عبادت گاہ ’’مندر‘‘ کہلاتی تھی۔ مسلمانوں کے ’’ہیروز‘‘ ہندوئوں کے ’’ولنز‘‘ تھے۔ مسلمانوں کے تہوار ہندوئوں کے تہواروں سے الگ تھے۔ مسلمانوں کا لباس ہندوئوں کے لباس سے مختلف تھا۔ مسلمانوں کی زبان فارسی اور اردو تھی۔ ہندوئوں کی زبان سنسکرت اور ہندی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے محلے الگ تھے ہندوئوں کے محلے الگ تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس پوری تقسیم کی بنیاد مذہب تھا۔ چلیے مان لیا کہ عام مسلمانوں کو انگریزوں نے ہندوئوںکا حریف بنایا مگر برصغیر نے جو تین بڑی شخصیتیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے تبدیل کیا۔ سرسید ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہتے تھے مگر پھر ایک وقت آیا کہ سرسید نے دیکھا کہ کانگریس کی قیادت فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیل رہی ہے اور ہندی کو فروغ دے رہی ہے چناں چہ سرسید نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ کانگریس میں نہ جائیں بلکہ اپنی الگ جماعت بنائیں۔ سرسید نے علی گڑھ میں جس کالج کی بنیاد رکھی اس میں اگرچہ ہندو طلبہ بھی پڑھتے تھے مگر یہ کالج سرسید نے مسلمانوں کی نئی نسل کے لیے بنایا تھا۔ اقبال سرسید سے بھی زیادہ وسیع المشرب تھے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں بابا گرونانک کی تعریف کی۔ مہاتما بدھ اور شری کرشن کو سراہا ہے۔ حد تو یہ کہ انہوں نے رام کو ’’امامِ ہند‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اقبال فرمایا کرتے تھے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اس دور میں اقبال کی ’’قوم پرستی‘‘ اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک شعر تو انہوں نے ایسا لکھ دیا ہے جو صرف کٹر ہندو ہی لکھ سکتا تھا۔ اقبال نے کہا ہے
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
مگر پھر ایک وقت وہ آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اقبال کی قلب ماہیت کردی اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کا راگ الاپنے والا اقبال
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
گاتا ہوا نظر آیا۔ پھر خاک وطن کے ہر ذرے کو دیوتا سمجھنے والا اقبال یہ کہتا دکھائی دیا۔
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ شعر بھی قلب ماہیت کے بعد اقبال ہی نے کہا
بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
برصغیر کی تیسری بڑی مسلم شخصیت قائداعظم ہیں۔ قائداعظم ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے۔ وہ کانگریس کے رہنما تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی بھی قلب ماہیت کردی اور وہ ایک قومی نظریے کے بجائے دو قومی نظریے کے علمبردار بن کر سامنے آئے۔ قائداعظم کی اسلام پسندی محض نعرہ نہیں تھی۔ وہ ان کا عقیدہ تھی۔ قائداعظم ویسے بھی آج کل کے رہنمائوں کی طرح نعرے باز نہیں تھے۔ وہ ایک صاحب عمل انسان تھے۔ قائداعظم نے فرمایا۔
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا۔ بلکہ ہم ایک تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو اپنا سکیں‘‘۔ (13 جنوری 1947ء)
ایک اور موقع پر قائداعظم نے فرمایا۔
’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام نے عطا کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی اصولوں پر رکھیں‘‘۔
قائداعظم نے ایک اور مقام پر فرمایا۔
’’نہ نظریہ ٔ پاکستان کسی قوم کی دشمنی پر ابھارتا ہے اور نہ جنگ پر۔ صرف مسلمانوں اور اسلام کی حفاظت کا نام نظریہ ٔ پاکستان ہے۔ (25جنوری 1948ء)
عائشہ جلال کا سرسید، اقبال اور قائداعظم کی قلب ماہیت کے بارے میں کیا خیال ہے کیا یہ بھی انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کا نتیجہ تھی؟
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قائداعظم اپنی سیاسی جدوجہد کے ابتدائی مرحلے میں قیام پاکستان کا مطالبہ لے کر کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ وہ ہندوستان کے دائرے میں رہتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ چاہتے تھے لیکن پھر قائداعظم کا فکری، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی ارتقا ہوا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا ہندوئوں کے ساتھ رہنا ناممکن ہے۔ چناں چہ قائداعظم نے جب ایک بار پاکستان کا مطالبہ کردیا تو پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پھر کبھی انہیں اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے نہیں دیکھا گیا کہ انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیوں کیا؟ ایک بار ایک صحافی نے انہیں یاد دلایا کہ وہ کبھی کانگریس میں تھے۔ قائداعظم نے سوال پر تبسم کیا اور فرمایا کہ وہ کبھی اسکول میں بھی تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ کانگریس کے زمانے کی سیاست کو اپنی ناپختگی کا زمانہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے سیاسی پختگی اس وقت حاصل کی جب وہ دو قومی نظریے کے علمبردار بنے۔ جب انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا۔ چناں چہ اس سلسلے میں قائداعظم کی سیاست کے ابتدائی زمانے کا حوالہ دینے کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سیدنا عمرؓ رسول اکرمؐ کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے مگر پھر ایک وقت وہ آیا کہ رسول اکرمؐ نے سیدنا عمرؓ کے بارے میں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔ آپؐ نے فرمایا ہر امت میں ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کی زبان سے فرشتے گفتگو کرتے ہیں اور میری امت میں وہ فرد عمرؓ ہیں۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں سیدنا عمرؓ رسول اکرمؐ کے بعد سب سے عظیم حکمران ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ شخص کتنا بددیانت ہوگا جو صرف اس بات کو دہراتا رہے کہ سیدنا عمرؓ ایک زمانے میں رسول اکرمؐ کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے۔ سیکولر اور لبرل دانش ور اور قائداعظم اور پاکستان کے حوالے سے یہی کرتے ہیں۔ وہ مسلسل دہراتے رہتے ہیں کہ قائداعظم کبھی متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کا حل دیکھتے تھے۔ ارے بدبختو یہ بھی تو بتائو کہ اس کے بعد کیا ہوا۔
عائشہ جلال نے کہا ہے کہ انڈوپرشین ہندوستان میں اصل چیز ’’مذہب‘‘ نہیں ’’اہلیت‘‘ تھی۔ یہ بات ایک حد تک ہی درست ہے۔ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ میں کبھی متعصب نہیں رہے۔ انہوں نے ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کو اہمیت دی۔ مسلمانوں نے 600 سال تک اسپن پر حکومت کی اور مسلمانوں کی حکومت میں یہودی اور عیسائی پھلتے پھولتے رہے۔ یہی معاملہ مغل سلطنت میں بھی ہوا۔ مغل سلطنت نے اپنے دربار اور کاروبار ریاست میں ہندوئوں کو جگہ دی۔ جہاں تک اہلیت کو اہمیت دینے کا تعلق ہے تو یہ بجائے خود ایک مذہبی تصور ہے۔ اس لیے کہ اس کے ڈانڈے عدل کے تصور سے جاملتے ہیں۔ اہلیت کو وہی اہمیت دے گا جو معاشرے میں عدل خیر اور حسن کا فروغ چاہے گا۔ بلاشبہ عدل، خیر اور حسن کا فروغ ایک مذہبی تصور ہے۔ دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو بھی یہی حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ مغلیہ سلطنت میں مذہب ہمیشہ اہم رہا۔ مغل بادشاہ اکبر کو مغل اعظم کہا جاتا ہے مگر مسلمانوں کے نزدیک اس کی اہمیت اورنگ زیب عالمگیر سے بہت کم ہے۔ اس لیے کہ اورنگ زیب ایک متدّین انسان تھا اور اکبر نے دین الٰہی ایجاد کرلیا تھا۔ مسلمانوں نے اورنگزیب اور دارا شکوہ کی کشمکش میں اس لیے اورنگ زیب کا ساتھ دیا کہ اورنگ زیب اسلام کی علامت تھا اور دارا شکوہ ہندو ازم کا استعارہ تھا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ خلافت ترکی میں ختم ہورہی تھی اور تحریک خلافت برصغیر میں چل رہی تھی اور ایسا اس لیے تھا کہ مسلمانوں کے ایسے خلافت ایک ’’مذہبی تصور‘‘ تھی۔
جہاں تک عائشہ جلال کے اس خیال کا تعلق ہے کہ قیام پاکستان کے حوالے سے مذہب برصغیر کے مسلمانوں کا ’’تشخص‘‘ تو تھا ’’عقیدہ‘‘ نہیں تھا تو یہ بات سو فی صد غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں کا تشخص بھی تھا اور عقیدہ بھی تھا۔ یہ عیسائیوں کی تاریخ کا معاملہ ہے کہ عیسائیوں نے مذہب اور سیاست کو الگ کردیا اور مذہب کو فرد کا انفرادی معاملہ قرار دے دیا۔ چناں چہ اب مغرب میں عیسائیت کروڑوں افراد کا ’’تشخص‘‘ تو ہے عقیدہ نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں مذہب کبھی فرد کا ذاتی معاملہ نہیں رہا اور ہماری تاریخ میں کبھی مذہب اور سیاست کی علٰیحدگی اس طرح واقع نہیں ہوئی جس طرح عیسائیوں کی تاریخ میں ہوئی۔ عیسائیوں کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کو جدا کرنا اس لیے آسان ثابت ہوا کہ سیدنا عیسیٰؑ نے کبھی حکومت نہیں کی مگر رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے کہ رسول اکرمؐ نے مدینے میں ایک ریاست کی بنیاد بھی رکھی اور طویل عرصے تک اس ریاست کی سربراہی بھی کی۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کا بنیادی کلمہ یعنی کلمہ طیبہ اپنی اصل میں ایک انقلابی کلمہ ہے۔ یہ کلمہ کہتا ہے ’’نہیں ہے کوئی اس سوائے اللہ کے اور محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ یہ کلمہ اپنی اصل میں ’’سلبی‘‘ ہے ’’ایجابی‘‘ نہیں۔ یعنی یہ کلمہ ایک سچے خدا کے اقرار سے پہلے لازم سمجھتا ہے کہ تمام جھوٹے خدائوں کو گرادیا جائے اور پھر سچے خدا کا اقرار کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ تمام جھوٹے خدائوں کی خدائی کا انکار اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا جب تک مسلمان ریاست و سیاست اور معیشت و معاشرت تک ہر دائرے میں اللہ کے حکم کو غالب کرنے والے نہ بن جائیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم معاشرے میں سیاست طاقت کا کھیل نہیں بلکہ ایک ’’عبادت‘‘ ہے۔ کلمے سے آگے بڑھا جائے تو قرآن مسلمانوں کے بارے میں صاف کہتا ہے کہ انہیں جب اقتدار دیا جاتا ہے تو یہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیاست و ریاست اسلام میں ایک مذہبی چیز ہے۔ پاکستان بنا ہی اس لیے ہے کہ اس کے دائرے میں اسلام کو غالب کرکے دکھایا جائے۔