چین سے قربت پر امریکا نے شہباز حکومت پر دہشت گردی کی آڑ لیکر دباؤ کا حربہ استعمال کیا

167

اسلام آباد ( میاں منیر احمد) عمران حکومت کی تبدیلی کے فوری بعد امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھاناچاہتا ہے کیونکہ شہباز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے پر چینی حکومت کی جانب سے انتہائی خوشی کا اظہار کیا گیا‘ چینی میڈیا نے میاں شہباز شریف کے وزیراعظم پاکستان بننے کی خبروں کو ہیڈ لائن بنایا اسی طرح چین کے پاکستان میں سفیر نے بھی شہباز شریف کے وزاعظم بننے پر نہایت خوشی کا اظہار کیا اور توقع کی کہ اب سی پیک منصوبوں میں تیزی آ جائے گی‘ امریکا سی پیک سے متعلق چونکہ ایک واضح پالیسی رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ سی پیک کامیابی سے ہمکنار ہو شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا نے شہباز شریف حکومت کو سفارتی محاذ کے ذریعے دباؤمیں لانے کا حربہ استعمال کیا ہے۔ یہ بات تجزیہ کاروں نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کہی کہ امریکا نے سرحد پار دہشت گردی روکنے کا مطالبہ کیوں کیا؟ تجزیہ کار مظہر طفیل نے کہا عمران حکومت کی تبدیلی کے فوری بعد امریکا پاکستان پر دباو بڑھانا چاہتا ہے کیونکہ شہباز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے پر چینی حکومت کی جانب سے انتہائی خوشی کا اظہار کیا گیا چینی میڈیا نے میاں شہباز شریف کے وزیراعظم پاکستان بننے کی خبروں کو ہیڈ لائن بنایا اسی طرح چین کے پاکستان میں سفیر نے بھی شہباز شریف کے وزاعظم بننے پر نہایت خوشی کا اظہار کیا اور توقع کی کہ اب سی پیک منصوبوں میں تیزی آ جائے گی امریکا سی پیک سے متعلق چونکہ ایک واضح پالیسی رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ سی پیک کامیابی سے ہمکنار ہو شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا نے شہباز شریف حکومت کو سفارتی محاذ کے ذریعے دباؤمیں لانے کا حربہ استعمال کیا ہے، تجزیہ کار مظہر طفیل نے کہا کہ سی پیک پر کام کرنے کی وجہ سے امریکانے دبائو بڑھانے کے لیے یہ اعلامیہ جاری کیا ہے، شہباز شریف نے وزیر اعظم بن جانے کے بعد سی پیک پر کام کی رفتار تیز کرنے کا عندیہ دیا ہے اور چینی حکومت نے بھی ان کے عزم کی تعریف کی ہے اور توقع ہے سی پیک کے منصوبے میں اب تیزی آجائے گی امریکا کا سی پیک کے بارے میں ایک نکتہ نظر ہے لہٰذا اس لیے اس نے حکومت کو دبائو میں لانے کے لیے یہ اعلامیہ جاری کیا ہے، سفارتی امور کے ماہر اور تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ امریکا میں ہر سال بھارت اور امریکاکی ٹو پلس ٹو کانفرنس ہوتی ہے اور ہر کانفرنس کے اختتام پر امریکا یہ اعلامیہ جاری کرتا ہے جس کے ذریعے وہ بھارت کو خوش اور مطمئن کرتا ہے تاہم وہ بھارت کے پاکستان کے خلاف مطالبات تسلیم نہیں کرتا بہر حال وہ اس کا راستہ اس طرح سے نکالتا ہے کہ وہ اعلامیہ میں یہ بات درج کی جاتی ہے کہ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی ختم کرنے میں مدد کرے، امریکا کبھی یہ بات فراموش نہیں کر سکتا ہے کہ پاکستان کی مدد کی وجہ سے ہی طالبان امریکا بات چیت کا عمل ممکن ہوسکا، سارک ایس ایم ای کمیٹی کے سابق وائس چیئرمین سجاد سرور نے کہا کہ امریکا کی طرف سے خطّے میں پاکستان کے کلیدی کردار کے اعتراف کے ساتھ پاک فوج کے ساتھ پہلے سے موجود عسکری تعلقات کے مستقبل میں بھی تسلسل کے عزم کا اظہار اسلام آباد واشنگٹن تعلقات میں کچھ عرصے سے در آنے والی پیچیدگی کے پس منظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ’’پینٹاگون‘‘ کے ترجمان جان کربی نے پریس بریفنگ کے دوران دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے واضح لفظوں میں تسلیم کیا کہ پاکستان اور اس کے عوام خود اپنے ہی ملک کے اندر دہشت گرد حملوں کے شکار ہیں بیان دہلی واشنگٹن مشترکہ اعلامیہ کے بعد سامنے آیا جو 11اپریل کو امریکا میں منعقدہ چوتھے سالانہ ’’امریکا بھارت وزارتی ڈائیلاگ‘‘ کے اختتام پر جاری کیا گیا اور جس میں دہشت گرد پر اکسیوں اور سرحد پار دہشت گردی کے حوالے سے اسلام آباد کی طرف انگشت نمائی کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے مجرموں کو سزا دینے کے علاوہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہ ہو ۔ امریکا سے دوستی کا دم بھرنے کے صلے میں پاکستان کو مخالف بلاک کی جن دھمکیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ جیسا بھی سہی، مشرقی پاکستان میں بھارت نے جو کچھ کیا اس کے ضمن میں اتحادی شراکت داروں کے رویے کی یادیں بھی خوشگوار نہیں کہی جا سکتیں۔ پاکستان کا مغربی بلاک میں رہتے ہوئے برادر اسلامی ملکوں کے علاوہ ہمسایہ ملک چین سے دوستی کے مضبوط رشتے میں منسلک ہونا فطری امر اور باہمی مفادات کا تقاضا تھا۔ کسی دوسرے ملک کے خلاف گٹھ جوڑ کا حصہ نہ تھا بلکہ اسلام آباد بیجنگ دوستی تو امریکا اور چین کے درمیان رابطے قائم کرنے کا ذریعہ بنی، سابق سفیر سفین احمد نے کہا کہ واشنگٹن اسلام آباد دوستی،اتار چڑھائو کے باوجود ویسی ہی رفاقت ہے جیسی دوستوں کے درمیان اچھے اور برے موڈ کے باوجود قائم و برقرار رہتی ہے۔ تاہم 11 اپریل کے امریکا بھارت اعلامیے میں پاکستان کو جن بے بنیاد الزامات کا ہدف بنایا گیا‘ انہیں بھارت اپنی ریاستی دہشت گردی اور کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی پردہ پوشی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے ان الزامات کا نکتہ وار جواب دیتے اور انہیں مسترد کرتے ہوئے سفارتی سطح پر امریکا کو بھی اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ ملکوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کا درست ذریعہ سفارتی چینل ہی ہوتے ہیں۔ 7 عشروں سے جاری پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان تعلقات کی مختلف جہتوں میں فوجی تعاون، معاشی مفادات، بین الاقوامی فورموں میں کردار، سماجی بہبود اور علاقائی امن و استحکام کے تقاضوں سمیت بہت کچھ آتا ہے جو ایسی ضرورت بن چکا ہے جس پر سرد جنگ کا حصہ نہ بننے کی پاکستانی پالیسی کے باوجود آگے بڑھنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ پاکستان نے خطے ہی نہیں عالمی امن کے فروغ کے لیے ہر طرح کی سہولت کاری کی ہے جسے نظرانداز کرنا اب کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا ہے۔