قرآن کی بیحرمتی… اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات

302

وزیراعظم شہباز شریف نے سوئیڈن اور ہالینڈ میں اسلاموفوبیا کے حالیہ دلخراش واقعات پر بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ان شرمناک واقعات کی مذمت کرے اور ایسے گھنائونے واقعات کے سدباب کے لیے کردار ادا کرے۔ جب کہ قرآن پاک کی بے حرمتی پر امارات کی حکومت نے سوئیڈن کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ انہوں نے دنیا کو رواداری و بقائے باہمی کی اقدار کو فروغ دینے اور نفرت و انتہا پسندی کے خلاف مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان دنوں مغربی و یورپی ممالک میں حجاب، قرآن پاک اور اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف گستاخانہ واقعات تشویشناک حد تک بڑھتے جارہے ہیں۔ پاکستان و عرب امارات کی جانب سے ان واقعات پر بروقت ردعمل پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی ہے۔ ایسے واقعات پر مغربی و یورپی ممالک اور اقوام متحدہ و عالمی حقوق کے اداروں کی بے حسی قابل مذمت ہے۔ اظہار آزادی کے پردے ہیں، ان شرمناک واقعات کا وہاں کی حکومتیں دفاع کرتی ہیں اور ذمے دار عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، جس سے ایسے عناصر کو حوصلہ ملتا ہے۔ حالاں کہ ایسے واقعات پر اظہار آزادی دراصل پوری اسلامی دنیا کے خلاف ایک خوشنما ہتھیار ہے جس کی آڑ میں اسلام کے خلاف اپنی دیرینہ عداوت و بغض نکالا جاتا ہے۔ مغرب کے اس دوہرے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ان واقعات کے پش پشت دراصل مغرب کا اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اس کی روحانی قوت سے خوفزدہ ذہن ہے جس کا اظہار آئے دن ہوتا رہتا ہے۔
آج مغربی تہذیب و تمدن روشن خیالی و لبرل ازم کی آزادی سے خود منحرف ہورہی ہے اور مادّہ پرستی کے اس دور میں روحانیت کی تلاش میں ہے۔ یہ روحانی طاقت و سکون صرف اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی مل سکتا ہے۔ اسلام کی دعوت کا محور انسانیت، رواداری، مساوات و عدل اور حریت فکر کی آزادی ہے۔ ایسی آزادی جو کسی کے دین و مذہب و عقیدہ کا احترام کرے اور ان کی فکر و عقیدہ کی آزادی کے مخالف نہ ہو، اسلام کے ان سنہری اصولوںکو عالمی سطح پر اپنانے سے دنیا میں امن و سلامتی و باہمی رواداری کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ایک دوسرے کا احترام اور ان کی مقدس شخصیتوں کے تقدس کو برقرار رکھنے کی دعوت دیتی ہیں۔ مسلمان اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے دیگر ادیان کی مقدس ہستیوں کا احترام کرتے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار مغربی و یورپی ممالک کی حکومتوں نے ایسے عناصر کو مکمل آزادی دے رکھی ہے جو اسلام کی مقدس ہستی رسول رحمت اللعالمین سیدنا محمدؐ کی ذات اقدس پر توہین کرتے ہیں اور مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن پاک پر حملہ کرتے ہیں۔ سوئیڈن و ہالینڈ کا تازہ واقعہ اس سلسلے کی کڑی ہے۔ پاکستان و عرب امارات کے بروقت بیان سے دیگر اسلامی ممالک کی حکومتوں کو بھی ایسے واقعات کے سدباب کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایسے واقعات دراصل 57 اسلامی ممالک کی بے حسی کا ثبوت ہیں۔ یہ ممالک ایسے واقعات پر محض رسمی بیانات دے کر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ ان بیانات پر مغربی دنیا میں کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہاں ایسے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں۔ خصوصاً نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام نہاد اصطلاح جو دراصل اسلام کے خلاف پروپیگنڈا جنگ ہے اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی سازش ہے اس کی ایک شکل اسلام اور شعائر اسلام پر حملہ ہے جو آئے دن ان ممالک میں پیش آتا ہے۔ اس منظم و مغربی و یورپی حکومتوں کے پس پردہ حمایت سے پیش آنے والے شرمناک واقعات کے تدارک کے لیے اب اسلامی دنیا کو میدان عمل میں آنا چاہیے۔
حالیہ واقعات کو عالمی سطح پر اٹھایا جائے۔ او آئی سی تنظیم کو فعال کیا جائے اس کے تحت باقاعدہ ایک شعبہ ہونا چاہیے جو اسلام و اسلام کی مقدس ہستیوں پر ناپاک حملوں کا علمی و دیگر ذرائع سے دفاع کرے اور تمام اسلامی ممالک کو ہر سطح پر ان حکومتوں سے بھرپور احتجاج کے لیے سرگرم کرے اور آئندہ کے لیے ٹھوس اقدامات کا طریقہ کار تجویز کرے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام کی فکری دعوت کو ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ اسلامی ممالک کی حکومتوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تدارک کے لیے اقوام متحدہ و دیگر عالمی فورم پر بھرپور آواز اٹھائیں، احتجاج ریکارڈ کرائیں اور اپنے نمائندوں کے ذریعے اقوام متحدہ میں ان واقعات کے خاتمے کے لیے ایسی تجاویز پاس کرانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ان ممالک میں ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے اور ایسے شرمناک واقعات کا اقوام متحدہ نوٹس لے کر کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ اسلامی دانشوروں، علما و میڈیا کو بھی اسلام کے خلاف جاری اس مہم پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے میدان عمل میں آنا چاہیے۔ ان ممالک کے انصاف پسند و زندہ ضمیر عوام کو اسلام کی رواداری و احترام انسانیت کی سنہری روایات سے آگاہ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ دور دانش و آگاہی کا دور ہے جو مغرب کے انصاف پسند اہل علم آج بھی اسلام کی سچائی و فطری حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں آرچ بشپ آف کنٹربری نے برطانیہ میں بین المذاہب و اقوام تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اسلامی قوانین کے نفاذ کی تجویز دی ہے جو تازہ ہواکا جھونکا ہے۔ یہ اسلام کی عالمی سچائی حقیقت اور روشنی کی کرن ہے۔ جس کی گواہی آرچ بشپ آف کنٹربری دے رہے ہیں ۔