مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوسکے گا

438

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوسکے گا‘ موجودہ حکمرانوں سے خیر کی کوئی توقع نہیں‘ ان کے سابق دور میں مزدور دشمن پالیسی پر عمل کرتے ہوئے 68 قومی ادروں کی نجکاری کا پلان مکمل کیا گیا ‘ سرمایہ دار، جاگیردار حکمران عرصہ دراز سے مزدورں کی تقدیر کا فیصلہ کرتے آ رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، اسٹیٹ بینک بینک آف پاکستان کے مزدور رہنما لیاقت علی ساہی، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری طیب اعجاز اور آل پاکستان کلاس فور ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر بھٹی راسب علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا نئی حکومت محنت کشوں کو ریلیف دے سکتی ہے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ سرمایہ داروں کے کاروبار، کارخانوں اور جائدادوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘ مزدور کے لیے جسم جان کا رشتہ قائم رکھنا محال ہوگیا ہے‘ قرضوں کی معیشت اورآئی ایم ایفاور لڈ بینک کی غلامی سے نجات اور خود انحصاری کا حصول مراعات یافتہ طبقے کی قربانی کے بغیر ممکن نہیں‘ مزدور اس حوالے سے وزیراعظم کے اقدامات کے منتظر ہیں۔ طیب اعجاز نے کہا کہ محنت کشوں کی زندگی حکمرانوں اور سرمایہ دار کے رویوں کی محتاج ہوتی ہے‘ مزدور حکومت سے توقعات رکھتے ہیں کہ وہ ان کے دکھوں کا مداوا بنے گی لیکن حکومت مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کرتی‘ وزیر اعظم شہباز شریف نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کر کے دوسرے دن یوٹرن لے لیا‘ موجودہ حکمرانوں سے خیر کی توقع نہیں‘ مزدور کی تنخواہ 25 ہزار روپے کی گئی ہے لیکن عمل درآمد کبھی نہیں ہو گا‘ یہ صرف دعوے ہی ہیں‘ موجودہ حکمران مزدور دشمن ہیں ‘ ان کے ہی سابق دور میں 68 قومی ادروں کی نجکاری کا پلان مکمل ہوا‘ موجودہ حکمرانوں کا منشور مزدوروں کو کچلنا ہے‘ سابق روایات کے مطابق اس دور میں مزدورکو کبھی ریلیف نہیں ملے گا۔ لیاقت علی ساہی نے کہا کہ شہباز شریف نے کم سے کم اجرت میں اضافے، ایک لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے اور پینشنرز کے لیے بھی 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے‘ اس پر عملدرآمد کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں‘ وزیر اعظم متعلقہ وزارتوں سے عمل درآمد کی کمپلائینس سرٹیفکیٹ حاصل کریں تاکہ ورکرز کو ان کے اعلان کردہ اضافے کی ادائیگی کو یقینی بنایا جاسکے بصورت دیگر اداروں کی نوکر شاہی اور اداروں کے مالکان اس اعلان کو ماضی کی طرح ہوا میں اُڑا دیں گے‘ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اس وقت کم از کم اجرت بے شمار اداروں میں مزدوروں کی تنخواہ ساڑھے17ہزار روپے سے بھی کم ہے‘ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم محنت کشوں کی قیادت سے براہ راست مشاورتی عمل کا آغاز کرکے محنت کشوں کے جائز مسائل بھی حل کریں گے۔ بھٹیراسب علی نے کہا کہ سرمایہ دار اور جاگیردار حکمران عرصہ درازسے مزدورں کی تقدیر کا فیصلہ کرتے آرہے ہیں‘ یہ بے بس اور مظلوم طبقہ ہے جو ان کے رحم و کرم پر جی رہا ہے‘ یہ جب بھی ہم پر احسان کرتے ہیں تو مہنگائی کے مطابق ہمیں 10 فی صد نتخواہوں میں اضافہ خیرات کے طور پر دیتے ہیں جو کہ مزدور کے ایک بچے کا ماہانہ خرچہ بھی نہیں ہوتا‘ باقی فیملی قرض پر چلتی ہے یا پھر خودکشی کی نوبت آتی ہے‘ مزدور حکومت کی نظر میں اتنے پست ہیں کہ ان کو نظر ہی نہیں آتے‘ نئے حکمران یہ وہی پرانے لوگ ہیں صرف سیٹ اپ تبدیل ہوا ہے‘ ان کے خیالات اور پالیسی نہیں بدلی‘ وعدے کیے جائیں گے وہ بھی پورے نہیں ہوںگے‘ مزدور طبقہ حکمرانوں کی غلامی کرتا رہے گا‘ انقلاب کا وقت آ گیا ہے ‘ اپنے حقوق کے حصول کے لیے مزدوروں اور سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کو متحد ہونا ہوگا ۔