افسران کی غفلت اور رشوت ستانی کے باعث مزدور محکمہ محنت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں

409

کراچی( رپورٹ: قاضی سراج) افسران کی غفلت اور رشوت ستانی کے باعث مزدور محکمہ محنت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں‘ مزدور مراعات کی بندر بانٹ راشی افسران کی ناجائز دولت کا بڑا ذریعہ ہے‘ محکمہ محنت سندھ کی کارکردگی پیپلز پارٹی کے دعوے سے مطابقت نہیں رکھتی‘ باصلاحیت افراد کی کمی اور فرسودہ انتظامی ڈھانچہ کے باعث محکمہ محنت مسائل کا شکار ہے۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، انٹرنیشنل یونین آف فوڈزسائوتھ ایشیا کے ڈائریکٹر قمرالحسن،نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ کے صدر شکیل احمد شیخ، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر محمد ظفر خان اورآئی آر اے اے کے رہنما ارشد محمود ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مزدور طبقہ محکمہ محنت کی کارکردگی سے کیوں مطمئن نہیں؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ مزدور طبقہ محکمہ محنت کی کارکردگی سے اس لیے مطمئن نہیں کہ اس محکمے کے اہلکار اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بجائے اپنے اختیارات کو رشوت کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ ہزاروں فیکٹریوں میں یونینز نہیں‘ اگر کہیں ہیں تو پاکٹ یونینز ہیں‘ کم از کم اجرت اور سیفٹی قوانین پر عملدرآمد نہیں کرایا جاتا‘ فیکٹریوں میں مستقل ملازمت کے بجائے دہاڑی دار یا ٹھیکیداری نظام قائم ہے جس کے خاتمے کے لیے محکمہ محنت توجہ نہیںدیتا۔ قمرالحسن نے کہا کہ مزدور طبقہ محکمہ محنت کی کارکردگی سے مطمئن کیوں نہیں ہے اس کی مختلف وجوہات ہیں‘ ان میں کرپشن، عملے کے احتساب اور کارکردگی جانچنے کے عمل کی عدم موجودگی، محکمے میں اہلکاروں کی تعداد اور با صلاحیت افراد کی کمی، ناکارہ اور فرسودہ انتظامی ڈھانچہ، افسران کی کام میں عدم دلچسپی، عملے کی مزدور قوانین سے عدم واقفیت کے ساتھ حکومت کی عدم دلچسپی بھی شامل ہے۔ محکمہ محنت کی غیر موثر کارکردگی میں ایک اور وجہ مزدور تنظیموں اور ٹریڈ یونینزکی کمزوریاں، عدم اتفاق اور عدم دلچسپی بھی شامل ہے۔ شکیل احمد شیخ نے کہا کہ سندھ کا محکمہ محنت مکمل طور پر سرمایہ داروںکا اعلیٰ کار بن چکا ہے‘ لیبر قوانین بہت اچھے ہیں لیکن اس پر 18ویں ترمیم کے بعد خصوصی طور پر صوبہ سندھ نے قانون سازی کرتے ہوئے بعض قوانین کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن نوکر شاہی کی غیر قانونی اور غیر آئینی من مانی کی وجہ سے لیبر قوانین سے محنت کشوں کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا‘ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق ملک میں ٹھیکیداری نظام غیر آئینی ہے لیکن ملک میں اور سندھ کے تمام صنعتی اداروں میں محکمہ محنت کی سرپرستی میں ٹھیکیداری نظام جاری ہے‘ اس کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق پرڈاکا ڈالا جا رہا ہے‘ بااثر وڈیرے اپنے علاقوں میں صنعتی اداروں کے مالکان پر دبائو ڈال کر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں‘ محنت کشوں کے مسائل کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اس پر محکمہ محنت کے افسران بھی آنکھیں بند کر کے ان وڈیروں کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اور اگر کوئی افسر محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین پر عملدرآمد کرانے کی کوشش کرے تو اس کے لیے ملازمت کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا جاتا ہے یا پھر علاقہ غیر میں تبادلہ یا او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے ۔ محمد ظفر خان نے کہا کہ محکمہ محنت کی کارکردگی سے مزدور 100 فیصد غیر مطمئن ہیں‘ اگر محکمہ محنت کی کارکردگی پر بات کی جائے تو مزدور شکایات کے انبار لگا دیتے ہیں‘ 18 ویں ترمیم کے بعد محکمہ محنت خالصتاً صوبائی معاملہ ہے مگر محکمہ محنت کی کارکردگی کو جانچا جائے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کرپشن، ناقص کارکردگی، سیٹھوں اور سرمایہ داروں کی دلالی اور مزدور کا خون چوسنے کے معاملے میں سب کا ایک جیسا حال ہے اور تمام صوبوں کے محکمہ محنت ایک دوسرے سے کرپشن اور ناقص کارکردگی میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ لیبر انسپکشن، ایجوکیشن، لیبر فلیٹس اور دیگر مزدوروں کو دی جانے والی مراعات کی بندربانٹ افسران کی ناجائز دولت میں اضافے کا بڑا ذریعہ ہے اور اس کام میں مزدور نمائندے جو ان محکموں اور اداروں میں نامزد ہیں ‘وہ بھی مزدور کے لیے آواز اٹھانے کے بجائے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے بلکہ نہانے میں مصروف ہیں‘ مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ محنت سے کرپشن کے خاتمے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اہل، صاف ستھرے کردار کے حامل مزدور دوست افسران تعینات کیے جائیں اور مزدور فیڈریشنز اور نمائندوں کو جو اہل اور دیانتدار ہو انہیں نمائندگی دی جائے۔ ارشد محمود ایڈووکیٹ نے کہا کہ محکمہ محنت کے جملہِ افسران جو مزدور مسائل سے جڑے ہوئے ہیں وہ اپنی صلاحیت کے مطابق کاوشیں کرتے رہتے ہیں اور ان کا کچھ نہ کچھ اثر بھی دکھائی دیتا ہے لیکن محکمہ محنت کی افسر شاہی جس کا مزدور مسائل سے دور تک کا واسطہ نہیں ہوتا وہ دیانتدار افسران کو کسی نہ کسی افسر کی سفارش پر بلاوجہ تنگ کرتی ہے اور انہیں درست کام کرنے سے منع کرتی ہے اور اس طرح دیانتدار افسران میں مایوسی جنم لیتی ہے اور پھر وہ بھی اپنی صلاحیتوں کو کسی بھی اچھے کام میں لگا نے سے اجتناب کرتے ہیں اور اس طرح محکمہ محنت بدنامی کا باعث بنتا ہے‘ اگر محکمہ محنت کے افسران بالا بلاوجہ کی مداخلت اور ڈکٹیشن دینا بند کر دیں تو محکمہ محنت کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے‘ سندھ میں تو حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جو مزدوروں کا نمائندہ ہونے کی دعویدار ہے لیکن محکمہ محنت کی کارکردگی پیپلز پارٹی کے دعوے سے مطابقت نہیں رکھتی اور وقت گزارنے پر یقین رکھتی ہے۔