اقلیتوں پر مسلمانوں کے احسان کی تاریخ اور جاوید چودھری

584

لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ماضی تو شاندار ہے مگر حال شاندار نہیں۔ مگر مسلمانوںکے حال کے کئی گوشے ایسے ہیں جنہیں شاندار کہا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک گوشہ یہ ہے کہ دنیا کی آبادی میں ڈیڑھ دو ارب انسان ایسے ہیں جو کفر پر کھڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دو ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جنہوں نے خدا کے شریک ایجاد کرلیے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمان ماضی کی طرح آج بھی توحید پرست ہیں۔ مسلمانوں کے حال کا ایک اور گوشہ شاندار ہے اور وہ ہے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کا حسن سلوک۔ مسلمانوں کی تاریخ اقلیتوں پر مسلمانوں کے احسانات کی تاریخ ہے اور یہ تاریخ ماضی میں جتنی شاندار تھی آج بھی اتنی ہی شاندار ہے۔ مگر جاوید چودھری نے اس تاریخ پر کم از کم پاکستان کے حوالے سے پانی پھیر دیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے حوالے سے ان کی رائے اچھی نہیں ہے تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ باقی ملکوں کے حوالے سے بھی ان کی رائے اچھی نہیں ہوگی۔ اس ضمن میں جاوید چودھری نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ وہ لکھتے ہیں۔
وزیراعظم اتوار کی شام جب قوم سے خطاب کررہے تھے تو میں ایک اجنبی پاکستانی نوجوان کا پیغام بار بار پڑھ رہا تھا، نوجوان نے خطاب سے ایک دن پہلے مجھ سے پوچھا تھا ’’میں کرسچین پاکستانی ہوں، کیا یہ ملک میرا نہیں ہے؟‘‘ میں نے اسے جواب دیا تھا ’’آپ مجھ سے زیادہ پاکستانی ہیں کیوں کہ میں شاید پاکستان نہیں چھوڑ سکتا لیکن آپ چوائس کے باوجود پاکستانی ہیں لہٰذا ملک پر آپ کا مجھ سے زیادہ حق ہے‘‘ اس نے کہا ’’پھر وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں صرف مسلمانوں اور ریاست مدینہ کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ یہ پاکستان کے ہر شہری کو پاکستانی کیوں نہیں سمجھتے اور ان کے اسٹیج پر اقلیت کے نمائندے کیوں نظر نہیں آتے‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور اتوار کے دن بھی عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے آخری عوامی خطاب میں صرف مسلمانوں کا ذکر کیا، یہ پاکستان کے ان محسنوں کو بھول گئے جو مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی اس ملک پر قربان کرگئے، مثلاً آپ تورو کو ہی لے لیجیے‘ اب سوال یہ ہے تورو کون تھا‘‘۔
اس کے بعد جاوید چودھری نے پاکستان کے لیے تورو کی خدمات کی تفصیلات بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ وہ پاکستان ائرفورس کے بنیاد گزاروں میں سے تھا اپنے پاکستان سے بے انتہا محبت تھی۔ اس نے ملک میں خلائی پروگرام شروع کیا، اس کے بعد جاوید چودھری نے ملک کے معروف سائنس دان عبدالسلام کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس حوالے سے کیا لکھا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام بھی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ دنیا آج بھی انہیں بڑا دماغ سمجھتی اور مانتی ہے، پاکستان کے لیے ان کے کنٹری بیوشنز بھی کم نہیں ہیں لیکن ان کا عقیدہ، ان کا مذہب بھی ہمارے سامنے دیوار کی طرح کھڑا ہوگیا اور ہم آج بھی ان کا احسان ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیا ہم ایک احسان فراموش قوم نہیں ہیں اور کیا ہم دنیا میں اپنی عادت کی سزا نہیں بھگت رہے؟ لہٰذا وزیراعظم صاحب خدا کے لیے عوام کو مذہب اور عقیدے کے نام پر مزید تقسیم نہ کریں، یہ ملک پہلے ہی عقیدوں کی آگ میں جل رہا ہے، اس ملک کی اقلیتیں ہم سے زیادہ پاکستانی ہیں، یہ آپشنز کے باوجود اپنی مرضی سے اس ملک کے شہری ہیں، آپ بار بار مذہب کا نام لے کر ان کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، کیا یہ ملک ان کا نہیں ہے اور کیا یہ 73 لاکھ لوگ اس ملک سے چلے جائیں؟
(روزنامہ ایکسپریس 29 مارچ 2022ء)
اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کے حسن سلوک کی تاریخ میں رسول اکرمؐ نے انہیں امت کا حصہ قرار دیا ہے اور انہیں بے پناہ تکریم سے نوازا۔ رسول اکرمؐ کے اس اسوئہ حسنہ اور خود قرآن کی تعلیمات کا اثر بعد کے مسلمانوں نے بھی قبول کیا۔ مسلمانوں نے مسلم اسپین میں 600 سال حکومت کی۔ مسلمانوں کے اس عہد میں یہودی اور عیسائی مسلم معاشرے کا متحرک حصہ تھے۔ ان میں فلسفی تھے، شاعر تھے، ادیب تھے، دانش ور تھے، عالم تھے، تاجر تھے، دربار سے وابستہ لوگ تھے۔ وہ ہر اعتبار سے معاشرے کے مرکزی دھارے کا حصہ تھے اور ان کے ساتھ رتی برابر بھی برا سلوک نہیں کیا گیا۔ مگر جب مسلم اسپین میں مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا تو عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ تین امکانات رکھے۔
(1) عیسائی ہوجائو
(2) ملک چھوڑ دو
(3) موت کے لیے تیار رہو
بدقسمتی سے عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کے ساتھ تینوں ظلم کیے۔ انہوں نے مسلمانوں کو جبراً عیسائی بھی بنایا، انہیں ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کیا اور جنہوں نے مذہب اور ملک چھورنے سے انکار کیا انہیں قتل کردیا گیا۔ ایسا کرتے ہوئے عیسائی حکمران بھول گئے کہ مسلمانوں نے دوچار سال نہیں 600 برس تک مسلم اسپین کو عیسائیوں کی جنت بنائے رکھا تھا۔
مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو صلیبی جنگوں کا پس منظر اور ان کے تفصیلات کا علم نہیں۔ 1095 میں اس وقت کے پوپ اربن نے کلیسا میں کھڑے ہو کر ایک زور دار تقریر کی۔ اس نے کہا کہ اسلام معاذ اللہ ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک
شیطانی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ اس نے کہا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ ہم اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو نیست و نابود کردیں۔ پوپ اربن نے یہ بات اس کے باوجود کہی کہ کبھی کسی ایک مسلمان نے بھی عیسائیت یا سیدنا عیسیٰؑ کی توہین نہیں کی۔ مسلمان ایسا کر بھی نہیں سکتے اس لیے کہ مسلمان صرف رسول اکرمؐ پر ایمان نہیں لائے بلکہ سابقہ انبیا پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ چناں چہ مسلمانوں کی تاریخ میں مذاہب یا انبیا کی توہین کی کوئی واردات موجود نہیں۔ مگر پوپ اربن نے پورے اسلام ہی کو شیطانی مذہب باور کرادیا۔ نہ صرف یہ بلکہ 1095 میں تمام عیسائی ملک ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوئے اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش دو سو سال تک جاری رہیں۔ ان جنگوں کے پہلے مرحلے پر بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ مغربی مورخین کے مطابق صلیبی فوجوں نے بیت المقدس میں اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیاں خون سے بھر گئیں اور ان میں گھوڑے چلانا دشوار ہوگیا۔ اس کے برعکس جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ بیت المقدس کو فتح کیا تو اس وقت بیت المقدس میں ایک لاکھ عیسائی موجود تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے یہ ماضی کا حساب برابر کرنے کا اچھا موقع تھا۔ لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسلمانوں کی تاریخ کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ اس نے اعلان کیا کہ عیسائی معمولی سی رقم جرمانے کے طور پر دیں اور بیت المقدس سے نکل جائیں۔ چناں چہ عیسائیوں نے ایسا ہی کیا۔ عیسائیوں میں کچھ لوگ غریب بھی تھے وہ معمولی سی رقم بھی ادا نہیں کرسکتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس کی خبر ملی تو اس نے جیب خاص سے غریب عیسائیوں کی مدد کی اور ان کے حصے کی رقم خود ادا کردی۔
مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ یہ اتنا بڑا عرصہ ہے کہ اگر مسلمان ریاست اور سرمائے کی طاقت کو تھوڑا سا بھی استعمال کرتے تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا۔ یہ وہ زمانہ نہیں تھا جب دنیا ایک عالمی گائوں تھی اور دنیا کے کسی حصے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا تھا۔ لیکن مسلمانوں نے جبر کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ انہوں نے ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی، ان کی عبادت گاہیں کھلی رہیں، وہ آزادی کے ساتھ اپنے تہوار مناتے رہے، انہوں نے اپنا لباس ترک نہیں کیا، انہوں نے اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کی، ان کی تمام زبانیں محفوظ رہیں۔ بعض ہندو مورخین نے اورنگ زیب پر الزام لگایا ہے کہ اس نے مندر توڑے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مندروں میں ریاست کے خلاف سازشیں تیار کی جاتی تھیں مگر اب مغربی مورخین اعلان کررہے ہیں کہ اورنگ زیب نے اپنی جیب خاص سے مندر بنوائے۔ اس کے دربار میں کثیر تعداد میں ہندو موجود تھے اور ہندوئوں کی مذہبی زبان سنسکرت بھی درباری زبانوں کا حصہ تھی۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں ایک مثال بھی ایسی نہیں جس میں ہندوکش فسادات ہوئے ہوں۔ لیکن جیسے ہی اقتدار ہندوئوں کے ہاتھ میں آیا انہوں نے مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی۔ ہندوئوں نے 20 ویں صدی کے آغاز ہی میں شدھی کی تحریک شروع کردی جس کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا جانے لگا۔ یہ مہم آج بھی بھارت میں جاری ہے۔ البتہ اس مہم کا نام اب گھر واپسی ہے۔ ہندوئوں کے رہنما گاندھی نے فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیلا، اس لیے کہ یہ دونوں مسلمانوں کی زبانیں سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی جگہ گاندھی نے ہندی کو فروغ دیا۔ پاکستان بنا تو ہندوئوں نے مسلم کش فسادات کراکے دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔ مسلمانوں کے خلاف مہم میں 80 ہزار سے زیادہ مسلم خواتین کو اغوا کیا گیا۔ یہاں تک کہ مسلم کش فسادات بھارت کی ایک مستقل روش بن گئے۔ چناں چہ گزشتہ 74 سال میں بھارت میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے۔ مسلمانوں نے اپنے ایک ہزار سالہ دور اقتدار میں ہندوئوں کو انسان سمجھا۔ مگر بھارت کے موجودہ وزیراعظم مسلمانوں کو کتے کا پلہ سمجھتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کی موت پر دکھ نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا کتے کا پلا اگر آپ کی گاڑی کے نیچے آجائے گا تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔
مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا مگر یہودیوں نے ارض فلسطین پر قبضہ کرکے وہاں اسرائیل کے نام سے ناجائز ریاست قائم کر ڈالی اور یہودی گزشتہ 80 سال سے فلسطینیوں کو قتل کررہے ہیں۔ مسلمانوں نے اقلیتوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا دین انہیں سکھاتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ سارے انسان سیدنا آدمؑ کی اولاد ہیں اور پوری انسانیت اللہ کا کنبہ ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ کثیر الثقافتی امت اس روئے زمین پر موجود نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور لسانی تنوع کا جیسا شعور اور ذوق رکھتے ہیں اس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان تنوع کو نہ صرف یہ پسند کرتے ہیں بلکہ وہ اسے مشیت خداوندی کا ایک پہلو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کو سینے سے لگایا ہے۔
پاکستان مسلمانوں کی اسی شاندار تاریخ کا تسلسل ہے۔ چناں چہ جاوید چودھری کا یہ کہنا درست نہیں کہ عمران خان قوم سے خطاب فرماتے ہیں تو وہ مذہبی اقلیتوں کو نظر اندز کرتے ہیں۔ اصل میں پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اتنی چھوٹی ہیں کہ وہ اجتماعی شعور کا حصہ نہیں بن پاتیں، جب تک مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا ہندو اقلیت پاکستان کی ایک بڑی مذہبی اقلیت تھی۔ وہ مشرقی پاکستان کی اجتماعی زندگی میں اہم کردار اد کرتی تھی۔ اس اقلیت کا تجارت میں سکہ چلتا تھا۔ شعر و ادب اور صحافت میں اس کا نمایاں کردار تھا۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں ہندو اساتذہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کی فضا تیار کرنے والوں میں ان اساتذہ کا بھی بڑا کردار تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد پاکستان میں ہندو اقلیت کا حجم بہت چھوٹا سا ہوگیا۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا حال یہ ہے کہ ہم نے اپنی 40 سالہ شعوری زندگی میں آج تک کسی پاکستانی مسلمان کو ہندوئوں یا عیسائیوں کے خلاف بات کرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کہیں کسی ہندو مسلمان کا جھگڑا ہوگیا ہو تو ہوگیا ہو لیکن پاکستان میں ہندوکش یا عیسائی کش فسادات کبھی نہیں ہوتے۔
جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام کا معاملہ ہے تو قادیانیوں کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ قادیانی اسلام کے باغی ہیں، وہ ایک جھوٹے پیغمبر کے ماننے والے ہیں۔ اس کے باوجود وہ خود کو مسلمان باور کراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے نے آج تک قادیانیوں کو قبول نہیں کیا ہے۔ جہاں تک عبدالسلام کا معاملہ ہے تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر سلام وہ شخص تھا جو امریکا کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں خفیہ معلومات فراہم کرتا تھا۔ اس کے باوجود جاوید چودھری کے لیے وہ بڑے محترم ہیں۔